لاہور: صوبہ پنجاب کی معروف کاروباری شخصیت اور ضلع خوشاب کے بارسوخ ترین افراد میں شمار ہونے والے ملک فاروق بندیال نے 40 سال پرانے شبنم کیس میں گھسیٹے جانے کی اصل کہانی بیان کر دی
کل جاری کیے گئے اپنے ایک ویڈیو بیان میں ملک فاروق بندیال کا کہنا تھا کہ میں سیاست میں کیوں آیا اور پی ٹی آئی میں شمولیت اور پھر چند گھنٹے کے اندر رکنیت کی منسوخی کے پیچھے کیا کہانی چھپی ہے ، شبنم کیس کو کس نے اچھالا ، مجھے تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے کس نے مجبور کیا ، مجھ پر کس کا دباؤ تھا اور آئندہ میرا لائحہ عمل کیا ہو گا ؟ آج میں ان سب سوالوں کے جواب دینا چاہتا ہوں ، میں تحریک انصاف میں شمولیت والے دن کے بعد سے کافی پریشان اور تکلیف میں ہوں اور ابھی تک میری تکلیف ختم نہیں ہوئی لیکن سب سے پہلے میں اپنے علاقہ حلقہ اور ضلع کے عوام کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اس مشکل وقت میں بھی ہر لمحہ میرا ساتھ دیا ، میری تحصیل قائد آباد کے عوام کہ پرزور فرمائش پر ہی میں نے قومی اسمبلی کے حلقہ93 خوشاب سے الیکشن لڑنے کا ارادہ کیا ، حالانکہ نہ تو مجھے کسی کرسی عہدے کی ضرورت تھی اور نہ ہی مجھے اسکی خواہش تھی مگر علاقہ کے عوام کی رائے اور اپنے علاقہ کی محرومی کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ میں این اے 93 سے الیکشن میں حصہ لوں میرے علاقے کے معززین نے فیصلہ کیا کہ اب ہمارے علاقے سے ممبر قومی اسمبلی بننا چاہیے سب سے پہلے تو میں نے تحصیل قائد آباد کے سیاستدانوں اور معززین سے درخواست کی کہ وہ خود قومی اسمبلی کے امیدوار کے لیے کوئی نام پیش کریں مگر جب سب نے ہاتھ کھڑے کر لیے اور مجھے ہی یہ ذمہ داری سونپنے کا ارادہ کر لیا تو پھر میں نے بھی حامی بھر لی ، اگر میں انکشاف کرنے پر آؤں تو کئی سفید پوشوں کو بے نقاب کر سکتا ہوں جنہوں نے میرے ساتھ بے وفائی اور بد عہدی کی لیکن میں کسی کے عیبوں سے پردہ نہیں اٹھانا چاہتا ، چند روز سے جاری میڈیا ٹرائل میں جس طرح مجھے ملوث کرکے میرے ناکردہ گناہ کی سزا دی گئی اس پر چند روز میں پریس کانفرنس کرونگا اور وہ سارے ثبوت جو میں نے اکٹھے کیے ہیں اپنے ضلع کے لوگوں اور پاکستان کے عوام کے سامنے رکھوں گا ۔ میری زندگی اپنے علاقہ میں گزری ہے یہاں کے لوگ میری زندگی کے نشیب و فراز اور میرے کردار سے اچھی طرح واقف ہیں اور عوام نے زندگی کے حالیہ مشکل ترین دنوں میں بھی میرے ساتھ کھڑے ہونے کا وعدہ کیا ہے لیکن چند نجی ٹی وی چینلز نے میری ساری زندگی کے کیے کرائے پر پانی پھیرنے کی کوشش کی ہے ، میں ہمیشہ سے یہ چاہتا تھا کہ آزاد حیثیت میں عام انتخابات میں حصہ لوں گا کیونکہ میرے علاقے کے لوگ میرے ساتھ ہیں ، میرے حلقہ کے سیاستدان اور تحریک انصاف کے رہنما ملک عمر اسلم اعوان نے بار بار مجھے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے کا کہا میں نے ہر بار انکے سامنے شرط رکھی کہ میں قومی اسمبلی کے حلقہ پر ہی الیکشن لڑونگا ملک عمر اسلم نے مجھے کہا کہ آپ میرے ساتھ چلیں اور تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کریں پھر جسے پارٹی چاہے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے دے ، ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا ، اسکے علاوہ تحریک انصاف کے چند بڑے سیاستدانوں نے بھی مجھے پیشکش کی کہ آپ آئیں تحریک انصاف میں شامل ہوں ٹکٹ بھی ہم آپ کو دیں گے ، مختصر یہ کہ این اے 93 کے ٹکٹ کے لیے ملک عمر اسلم اور میں آمنے سامنے تھے مگر پھر بھی میں نے انکے کہنے پر تحریک انصاف میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا اور انکے ساتھ وعدہ کیا کہ اگر شمولیت کے بعد مجھے ٹکٹ ملا تو آپ ہمارے حق میں دستبردار ہونگے اور اگر پارٹی نے آپ کو ٹکٹ دیا تو پھر ہم یہ فیصلہ قبول کرینگے اور آپ کے خلاف الیکشن نہیں لڑیں گے شمولیت کے وقت تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے تقریباً 100 فیصد میرا ٹکٹ کنفرم کر دیا مگر اگلے ہی روز سوشل میڈیا پر میرے خلاف طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ، پاکستان کے لوگ اسے جو بھی سمجھیں مگر میرے علاقہ اور ضلع کے لوگ اس ساری گیم کو بخوبی سمجھ رہے ہیں ، لہذاٰ سوچ سمجھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک عمر اسلم سے میں نے انکے خلاف الیکشن نہ لڑنے کا وعدہ کیا تھا اسے میں نبھاؤں گا لیکن جس تحریک انصاف نے مجھے مشکل وقت میں فوراً خود سے جدا کر دیا اسکا نہ تو جھنڈا ہاتھ میں اٹھاؤں گا نہ اسکے نعرے لگاؤں گا اور نہ اسکے کسی جلسے میں شریک ہوں گا ِ اور اس کے ساتھ ساتھ چند روز بعد میں لاہور میں ایک پریس کانفرنس ضرور کرونگا ۔ مجھے عمران خان سے صرف ایک شکایت ہے کہ ایک ٹی وی چینل کے شوشے پر انہوں نے میری کوئی بات سنے بغیر فوراً میری رکنیت منسوخ کر دی ۔ شکر الحمد للہ میں نے بڑی مشکلوں سے 16 سال کی عمر میں کی گئی ایک معمولی سی غلطی کے تمام ثبوت اکٹھے کر لیے ہیں وہ تمام میں تمام میڈیا اور ٹی وی چینلز کو بلا کر انکے سامنے پیش کرونگا اور اور پھر اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دونگا ۔