تحریر: ڈاکٹر بی اے خرم
حضرت انسان کو دنیا فانی میں زندہ رہنے کے لئے اپنے پاپی پیٹ کو غذا کے ایندھن سے بھرنا ہی پڑتا ہے اگر انسانی جسم کو ضرورت کے وقت غذا نہ ملے یا پھر بے وقت ملے تو پھر غذائی قلت کے باعث طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہونے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے مثلا معدہ ،انٹریوں کی سوزش اور جگر کی خرابی کے باعث کمئی خون، ہیپاٹائٹس جیسے موذی مرض پیدا ہوجاتے ہیں اور جب بیماری کسی انسانی جسم کو اپنی آماج گاہ بنا لے اور اسے اس بیماری کے مطابق دوا نہ دی جائے تو وہ انسان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد راہی ملک عدم ہوجاتا ہے غذائی قلت کے شکار لوگ خوشی سے موت کو سینے سے نہیں لگاتے بلکہ ان کے وسائل اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ ضروریات زندگی بحال رکھ سکیں بے شک اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں ہے کہ امیری اور غریبی کا تعلق انسان سے نہیں بلکہ رب کائنات سے ہے وہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے اور جسے چاہے نپا تلا دے ، اس کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کا بھی اولین فرض ہے کہ وہ اپنی رعایا کے لئے روزگارکے مواقع اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کر ے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے حکمرانوں نے ہمیشہ سے ایسی پالیساں ترتیب دیں جس سے امیری اور غریبی میں فرق بڑھتا گیا
امیر لوگ مزید دولت مند اور غریب مسلسل غریب تر کیوں ہو رہا ہے ؟ اس سوال کا جواب ایک بین الاقوامی امدادی تنظیم اوکسفیم نے دنیا میں پائی جانے والی مالیاتی عدم مساوات اور امیر اور غریب کے درمیان پیدا خلیج پر مبنی ایک رپورٹ میں دیا ہے اس کے مطابق دنیا کی کل تین ارب پچاس کروڑ آبادی کے پاس اتنی دولت نہیں ہے جتنی اسی زمین کے 62 افراد کے پاس ہے۔اوکسفیم نے ان افراد کو انتہائی امیر کبیر قرار دیا ہے۔ انتہائی امیرکبیر افراد میں سے 30 کا تعلق امریکا سے ہے جبکہ 17 براعظم یورپ میں رہتے ہیں۔ بقیہ افراد چین برازیل میکسیکو جاپان اور سعودی عرب سے تعلق رکھتے ہیں 2010 کے بعد دنیا کے امیر کبیر افراد کی دولت میں چوالیس فیصد اضافہ ہوا اور دوسری جانب دنیا بھر کی کل آبادی کی غربت اکتالیس فیصد بڑھی ہے۔ اس مالیاتی تفریق کو بنیاد بنا کر عالمی لیڈر منافقت سے کام لیتے ہیں اور عملی اقدامات کے بجائے صرف زبانی کلامی کام چلاتے ہیں دنیا کبھی بھی اتنی عدم مساوات کی شکار نہیں تھی جتنی اب ہے اور افسوسناک بات یہ بھی ہے
اس رجحان میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا کے کئی امیر اشخاص کی ذاتی ملکیت میں تقریبا 7.6 ٹریلین ڈالر ہیں۔اگر اس دولت پر ٹیکس ادا کر دیا جائے تو یہ 190 بلین ڈالر بنتا ہے اور یہ دنیا کے کئی ملکوں کی اقتصادیات کے لیے بہت بڑا سہارا بن سکتا ہے۔ اسی طرح افریقہ کی مجموعی دولت کا تیس فیصد افریقی دولتمندوں نے دوسرے ملکوں میں جمع کروا رکھا ہے۔یہ لوگ اگر اس دولت پر صرف جائز ٹیکس ہی ادا کر دیں تو چودہ بلین ڈالر حاصل ہو گا اور یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ براعظم افریقہ کے چالیس لاکھ بچوں کی زندگیاں سالانہ بنیاد پر بچائی جا سکتی ہیں۔
وسیع و عریض رقبے پر پھیلا سندھ کا صحرا تھر چھ تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ سواری کیلئے کیکڑا نامی بس چلتی ہے یا پھر جیپ۔ بجلی صرف شہروں تک محدود ہے۔ تھر میں زندگی اتنی آسان نہیں زندگی پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا ہار بھی ہے۔ سندھ اور وفاق کی نظر میں ڈسٹرکٹ مٹھی کو ہی تھر سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ چھ تحصیلوں چھاچھرو، مٹھی ڈیپلو، ڈاہلی، اسلام کوٹ اور ننگر پارکر اس ضلع میں شامل ہیں۔سرکاری اعداد و شما رکے مطابق 2ہزار 325گاوں رجسٹرڈ ہیں۔ سانپ کی طرح بل کھاتی سڑک ارباب غلام رحیم کے دور میں تعمیر کی گئی تھی لیکن گائوں میں ریت پر چلنے والی مخصوص سواری کیکڑا اور جیپ میں سفر کیا جائے تو جسم اور دماغ کے انچرپنجر بھرپور طریقے سے ہل جاتے ہیں۔ ریت میں سواری کے لیے صرف جیپ ہی کام آتی ہے۔ سورج ڈھلے تو چاندی جیسی سفید ریت کی چمک بھی ماند پڑنا شروع ہو جاتی ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ تھر میں دن صرف دس گھنٹے کا ہوتا ہے تو ایسا کہنا غلط نہیں ہوگا۔ شہروں میں بجلی ہے لیکن دیہات اب تک ایک بلب کی چمک دیکھنے سے بھی محروم ہیں۔ یہاں کے باسیوں کا گزربسر صرف جانوروں کی افزائش پر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تھر میں پاکستان کی ضرورت کے پچیس فیصد جانوروں کی افزائش ہوتی ہے۔بچوں کی ہلاکتوں کی بڑی وجہ غذائی قلت اور بیماریاں ہیں تاہم شدید سردی بھی ننھی جانوں پر موت بن کر منڈلا رہی ہے۔
تھر پارکر کے سرکاری اسپتالوں میں جہاں طبی سہولتوں کا شدید فقدان ہے وہیں خوراک کے گوداموں کے منہ ابھی تک نہیں کھولے گئے جس سے بچوں کی اموات کا سلسلہ نہیں تھم سکا۔عروس البلاد شہر کراچی سے 278 کلو میٹر دورہندوستانی سرحدیعنی بارڈر سے ملحقہ صحرائی علاقہ کی آخری قومی مردم شماری 1998ء کے مطابق ضلع تھرپارکرکی آبادی 955،812 ہے جس میں سے صرف 4.54 فیصد ہی شہروں میں مقیم ہے اس ضلع کا بیشتر علاقہ صحرائے تھر پر مشتمل ہے جبکہ جنوب میں رن کچھ کے دلدلی علاقے اور نمکین جھیلیں ہیں۔ یہاں کے اہم شہر مٹھی، اسلام کوٹ اور چھاچھرو ہیں جبکہ کراچی سے بھارت جانے والی ریلوے لائن بھی یہیں سے گزرتی ہے
بذریعہ کھوکھراپار بھارت کے علاقے موناباؤ جاتی ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ تھر میں 117سالوں میں 47 بارقحط سالی کا شکار ہوا 1994تک ہر حکمران نے بنیادی سہولتوں کی فراہمی تو دور کی بات یہاں ایک اینٹ بھی لگانا گوارہ نہ سمجھی جو تھر کے باسیوں سے زیادتی کے زمرہ میں شامل ہے یہاں سے بہت سے لوگوں نے اقتدار حاصل کیاجن میں سندھ سے ذوالفقار علی بھٹو،محمد خان جونیجو،بے نظیربھٹووزیر اعظم اور آصف علی زرداری صدر مملکت کے عہدہ تک پہنے لیکن وہ سب تھرکے عوام کو وہ سہولتیں نہ دے سکے جو یہاں کے باسیوں کو ملنا ضروری تھیںحکمرانوں کی ناقص حکمت عملی کی بنا پہ تھر میں غذائی قلت کے شکار بچوں میں ہلاکتوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے اور یہ سلسلہ کب تھمے گا یہ بتانا مشکل بات ہے 200 سے زائد بچے اب بھی زیرعلاج ہیںکوئی پرسان حال نہیں ہے اور تو اور اب مویشی بھی چارہ نہ ملنے پہ ہلاک ہو رہے ہیں جبکہ سائیں سرکار ٹس سے مس نہیں ہورہی سندھ سرکار کے ”وڈے سائیں ” بڑی ڈھٹائی سے فرماتے ہیں
” تھر میں بچوں کی ہلاکتیں ہوئیں نہ ہی وہاں کوئی قحط سالی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تھر کی آبادی سولہ لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور ان کے پاس ساٹھ لاکھ مویشی ہیں۔سندھ حکومت پانچ سال سے تھر باسیوں کو مفت گندم فراہم کر رہی ہے۔صوبائی حکومت نے تھر میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا دیا،دور دراز آبادیوں تک بجلی پہنچائی۔ وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے دعوی کیا کہ تھر میں نہ تو کوئی قحط سالی ہے اور نہ ہی وہاں بھوک کے باعث بچوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں”اب ”وڈے سائیں ” کو کون بتائے اور سمجھائے کہ ایسا نہیں ہے جو آپ فرمارہے ہیں کیونکہ میڈیا چیخ چیخ کے غذائی قلت سے تھر میں ہونے والی ہلاکتوں سے خوفناک حقائق سامنے لا رہا ہے جس سے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں
2015ء میں غذائی قلت کے باعث ہلاک ہونے والے بچوں کی تعداد 376 تھی اور اب نئے سال کے ماہ جنوری میں غذائی قلت کے شکار بچوں کی ہلاکتوںکی تعدادسنچری سے تجاوز کرتے ہوئے 116 ہوگئی ۔حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کے باعث تھرپارکر میں بچوں کی اموات کا سلسلہ تھم نہیں سکا ۔ قحط سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں شروع نہ ہو سکیں حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینا ہوں گے ورنہ تھر کے باسی سسک سسک کر زندگی کی بازی ہارتے رہیں گے ۔
تحریر: ڈاکٹر بی اے خرم