تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
تاریخ انسانی کا ورق ورق شاہوں اور شاہ نوازوں کے واقعات سے بھرا پڑا ہے’ ہر دور میں ظالم اور مادیت پرست ہی نظر آئے تا ریخ انسانی کا ہر دور ضمیر کے تاجروں اور وفا کے سوداگروں سے بھرا ہوا نظر آتا ہے، لیکن اِن شاہوں کے تذکروں کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسے کردار کے پہاڑوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے، جنہوں نے ہر دور میں قرب شاہی پر خود آگاہی کو ترجیح دی، جنہوں نے ظلم کو حق کہنے سے ہمیشہ انکار کیا، جنہوں نے ہر دور میں حق اور انسانیت کا ساتھ دیا اور کبھی بھی ضمیر کا سودا نہیں کیا، ایسے ہی کردار کے غازی ہو تے ہیں، جن کے سامنے بڑے بڑے لوگ پا نی بھرتے نظر آتے ہیں، یہی وہ سودائی ہیں جن کے کردار کی روشنی سے گلستان ہستی کے رنگ قائم و دائم ہیں، خدا قسم اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو کردار اور انسانیت کا تسلسل کیسے قائم رہتا۔ اکثر یہ کہا جا تا ہے، کہ بڑے لوگ صرف بڑے شہروں یا بڑی درس گاہوں سے ہی طلوع ہو تے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ یہ مفروضہ غلط ہے ‘بڑاہو نے کے لئے بڑا شہر بڑی مشہور درس گا ہ سے پڑھا لکھا ہو نا ضروری نہیں’ بڑا ہونے کے لیے سچا جذبہ درکار ہوتا ہے۔ روشنی کے لئے گھی کے چراغ نہیں روشن دماغ مطلوب ہوتے ہیں منزل پانے کے لیے شارٹ کٹ سفارش کی نہیں اعلی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے، ‘ناموری کے لئے اقتدار کے ایوانوں میں اہل اقتدار کے جوتے چاٹنا ضروری نہیں، خداداد ذہانیت کام آتی ہے نیک نامی اشتہار یا صحافیوں کو خریدنے سے نہیں حسن کردار ‘ٹھوس کردار سے ملتی ہے تاریخ میں زندہ امر ہونے کے لئے پبلسٹی نہیں نیک نیتی ضروری ہے کسی بڑے کام کی تکمیل کے لیے کو چہ اقتدار ی کی چاکری ضروری نہیں یہ چھوٹے شہروں میں بھی ممکن ہے۔
زندگی خدائے بزرگ برتر کا سب سے قیمتی انعام ہے، زندگی کا سفر بہت طویل اور پر پیچ بھی ہے، اِس کو ہر ایک نے طے کرنا ہے سکندر اعظم نے آدھی عمر گھوڑے کی پیٹھ پر دنیا فتح کرنے میں گزاری چنگیز، ہلا کو اور تیمور نے انسانوں کا قتل عام کرنے میں ‘جمشید جام جہاں نما کے سامنے بیٹھا رہا’ اقیصر وکسرٰی تخت کے پائے چوبیس سے چھپ کر زندگی گزارتے رہے ‘دیو جانس کلبی نے ایک ٹب میں ساری زندگی مراقبے میں گزار دی’ منصور نعرہ حق میں سولی چڑھ گیا ‘رانجھا و نجلی کی دھن میں گم رہا’ قیس نے لیلیٰ کے پیچھے صحرا گردی میں زندگی گزار دی ‘اہل اقتدار نے اقتدار کے حصول اور اس کو قائم رکھنے میں شب و روز گزار دئیے ‘شہرت اور ناموری کے دیوانوں نے حماقتوں کی لمبی لمبی داستانیں رقم کیں’ زندگی کی ہنگامہ خیزیوں میں انسان اِس بری طرح گم ہو تا ہے کہ وہ موت کو بلکل بھو ل جاتا ہے ”موت” اتنی برق رفتاری سے آتی ہے کہ بادشاہوں کو تخت و تاج اور گدائوں کو اپنا بوریا بستر لپیٹنے کا مو قع نہیں دیتی ‘کو ئی شاہی محل میں آخری ہچکی کے یا فٹ پاتھ پر مٹی کا ڈھیر بنے ‘دنیا کے مہنگے ترین ہسپتالوں اور ماہر ترین ڈاکٹروں کے ہاتھوں موت کے اندھیرے غار میں اتر گئے۔
‘آخری آرام گاہ وہی دو گز بھر زمین اوپر سے کچی مٹی کا لیپ اور پانی کا چھڑکائو ‘قبر آپ سنگ مر مر سے بنا دیں ‘گنبد ‘مینار اور کلس سجا دیں بچھونا وہی خاک رہے گا موت اتنا اچانک وار کرتی ہے کہ سارے منصوبے اور احتیاطی تدابیر دھری کی دھری رہ جاتی ہیں بادشاہوں نے مضبوط چٹانوں سے فصیلیں بلند و بالا کھڑی کیں لیکن موت نے آدبو چا ‘گداوں نے دنیا چھوڑ دی ساری عمر سجدوں میں گزار دی لیکن موت نے آپکڑا ‘موت کے سامنے نہ کوئی با دشاہ نہ کوئی گدا ‘نہ موت سادگی دیکھتی ہے نہ شاہی لباس ‘کوچہ فنا سے گزرنا ہر ایک کے مقدر میں لکھا ہوا ہے اگر موت کو حقیقت سمجھ کر قبول کرلیا جائے تو ٹھیک ہے ورنہ جا نوروں کی طرح ہانک کرلے جایا جاتا ہے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جو موت کا روز محشر کا خیال رکھتے ہیں ایسے لوگ زندگی کو خدا کا عطیہ سمجھتے ہیں اور موت کو فیصلہ خداوندی ‘ایسے لوگ بازار حیات سے گزرتے ضرور ہیں، لیکن وہ اِس کے خریدار نہیں ہوتے موت کی اندھی غار میں اترتے ضرور ہیں لیکن فنا نہیں ہوتے ہر گزرتے دن کے ساتھ انسان کرہ ارض پر بڑھتے جا رہے ہیں لیکن اچھے انسان گھٹتے جا رہے ہیں جگر مراد آبادی نے کیا خو ب کہا ہے۔
”گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے” ویسے تو ہر دور میں ہی اچھے انسانوں کا قحط رہا ہے لیکن موجودہ مادیت پرستی میں غرق دور میں تو انسان بہت ہی نایاب ہوگیا اگر کبھی بھولے بسرے کوئی انسان مل جائے تو اُس کے پاس سے اٹھنے کو دل ہی نہیں کرتا ایسا ہی ایک زندہ انسان میرے سامنے بیٹھا تھا، اُس کے چہرے پر شفیق دلنواز پھیلی مسکراہٹ نے مجھے اُس کو گرویدہ کر دیا تھا، میں اُس کی کمپنی سے لطف اندوز ہو رہا تھا یہ انو کھا شفیق انسان پچھلے کئی گھنٹوں سے اپنے کردار اور شفیق مسکراہٹ کی خیرات بانٹ رہا تھا اپنی ذات کو ترک کرکے دوسروں کے کام آنے کی کوشش کر رہا تھا اپنی خوشی پر دوسروں کی خوشی کو ترجیح دے رہا تھا، میرے سامنے مرگی زدہ بچے کی اگلے تین سال کی رقم کا بندوبست کر چکا تھا میں اس کردار کے K2 سے بہت متا ثر ہوچکا تھا میں اِس کے با رے میں جاننا چاہتا تھا، اُس کے خدمت خلق اور شفیق تبسم کا اصل راز کیا ہے، اِس کو جاننے کے لیے میرا تجسس نقطہ عروج پر تھا۔ میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کافی سال قبل محنت مزدوری کے لیے وہ یورپ چلا گیا ابتدائی سالوں کی مشکلات کے بعد اللہ تعالی نے میرا ہا تھ پکڑ لیا اور میں چند سالوں میں ہی امیر ترین بندوں میں شامل ہو چکا تھا بے پنا ہ دولت شہرت اور کامیابی کو میں اپنی ذہانت قرار دیتا تھا کہ یہ سب کچھ میں نے اپنی عقل کے بل بوتے پر حاصل کیا ہے میں خود کو ایک سمجھ دار اور عقل مند آدمی سمجھنے لگا تھا کہ عزت دولت اور کام کیسے نکلوانا ہے یہ ایک آرٹ ہے اور یہ آرٹ مجھے خوب آتا ہے، میں اپنی چالاکیوں اور دماغ کو ہی ہر کامیابی کی کنجی سمجھنے لگا تھا، جب میں ہر کامیابی کو عطیہ خداوندی کی بجائے اپنی کوشش اور چالاکی سمجھ رہا تھا تو آہستہ آہستہ میں غرور اور گھمنڈ میں مبتلا ہوتا چلا گیا، کیونکہ میں نے دولت کے ڈھیر اکھٹے کر لئے تھے۔
اب میں نے لمبی منصوبہ بندی شروع کر دی کہ کس طرح بیوی بچوں کے ساتھ بھر پور کامیاب زندگی گزار نی ہے، میں نے مہنگی مضبوط ترین گا ڑیاں لے لیں ‘میں نے مضبوط وسیع و عریض گھر خرید لیا اور مختلف شہروں میں اپنے کاروبار کے نیٹ ورک کو پھیلا دیا، پیسے کے زور پر میں ہر چیز خرید رہا تھا، میں دن رات اِس کو شش میں تھا کہ میں وہ تما م چیزیں خرید لوں جن کے بل بوتے پر میں اور میری فیملی بھر پور کامیاب زندگی گزار سکیں میں خود ہی خدا بن کر فیصلوں پر فیصلے کئے جا رہا تھا کہ مجھے کامیاب زندگی گزارنے کا طریقہ آتا ہے پیسہ کس طرح کمانا ہے معاشرے کے بااثر لوگوں سے تعلقات کیسے بنانے ہیں یہ سب مجھے آتا ہے روپے پیسے کے بل بوتے پر نوکروں کی فوج دن رات میری آسائشیں و آرام کے لیے مستعد کھڑی رہتی ‘میں فرعون بنا نوکروں کو حکم پر حکم دیتا رہتا میں انسانوں کو جانور سمجھنا شروع ہوگیا کہ اگر یہ غریب ہیں تو اِس میں اِن کا قصور ہے یہ عقل نہیں رکھتے یہ زندگی کا آرٹ نہیں جانتے میں انسانوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتا تھا۔ لیکن پھر وہ دن آیا جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ایک دن ٹریفک حادثے میں میرا پورا خاندان زندگی سے ہا تھ دھو بیٹھا میں بہت زیادہ دولت کاروبار کے ساتھ دنیا میں وہ اکیلا رہ گیا میں جو ہر چیز کو حاصل کرنے کا آرٹ جانتا تھا بے بسی اور دکھ میں غرق ہو چکا تھا کیونکہ میں پوری دولت دے کر اور اپنی تمام ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کر کے بھی اپنے خاندان واپس نہیں لا سکتا تھا۔ میں ڈپریشن کاشکار ہوگیا کا روبار عدم توجہ کی وجہ سے برباد ہوتا چلا گیا اور میں فقیر بن کر سڑک پر آگیا۔
قرضوں کا بوجھ اتنا بڑھ گیا میں دیوالیہ ہوگیا، میں موت کے قریب پہنچ گیا کہ پھر مجھے ایک مسیحا انسان ملا اُس نے مجھے بتایا حقیقی زندگی خدمت خلق اور دوسروں کی آسانی میں ہے میں نے دوبارہ کا روبار شروع کیا دوبارہ شادی کی اب پھر میرا کا روبار اچھا ہو رہا ہے لیکن مجھے اچھی طرح سمجھ آگئی ہے کہ زندگی اور کامیابی عطیہ خداوندی ہے اپنی ذہانت نہیں ‘میرا مشن ہے میں اچھے لوگوں سے ملتا ہوں اِسی لیے آپ کے پاس آیا ہوں میرے اوپر خدا بہت مہربان ہے مجھے آپ سے کوئی کام نہیں آپ سے صرف یہ دعا کی درخواست ہے کہ خدا کبھی مجھے سے پھر ناراض نہ ہو جائے میں خوشگوار حیرت سے پردیسی کو دیکھ رہا تھا کہ جس کو خدا نے لاٹھی سے مار کر اپنے قریب کر لیا ورنہ جو غرور کی گھاٹی میں گرتا ہے وہ کبھی نہیں ابھرتا۔
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ای میل: help@noorekhuda.org
فون: 03004352956