تحریر: ازشاز ملک
انسان کو اللہ کی عطا کردہ سب نعمتوں میں سب سے بڑی افضل نعمت زندگی ہے نعمت مترکبہ …نعمت خدا وندی جسے وہ جب چاہے دے اور جب چاہے چھین لے ازل سے جب زندگی کو تخلیق کیا گیا تو خالق نے اپنی اس تخلیق پر یہ واضح کر دیا کے اختیار کل اسی کا ہے وہی کن فیکن کہنے پر قادر ہے ذرہ ذرہ اسکا تابع ہے اسکے حکم پے کاربند ہے کائنات کی ہر شے جو آسمانو زمین میں چھپپی ہے یا ظاہر ہے اسی کی ہے اپنے خالک کی تخلیق جسے اس ذات واحد نے کن کہ کر فرمایا اس ازل سے ابد تک رہنے والے خالق ارض و سما کل کاینات کے مالک کے سامنے کس کی مجال ہے کے سر اٹھا سکے ..
کیوں کے وہ ذات واحد اپنی تخلیق سے صرف اطاعت کی طلبگار ہے اور پھر کون ہے جو اسکی رضا کے سامنے سرتسلیم خم نہ کرے کون ہے جو مالک کل کی احتیاج نہ کرے زمین و آسمان کی کائنات کی حدود و قییود اسی ذات پاک کی مرتب کردہ ہے جو اپنے مقرر کردہ اصول و ضوابط پر سختی سے کار بند ہے یہ سلسلہ ازل سے ابد تک رہیگا اور یہیں سے جزا و سزا کا فیصلہ ہو گا جسم نو ع انسانی کے لئے جب زندگی کا پیرہن تیارکیا گیا تو یہ پیرہن جہاں خوش کن دلفریب رنگوں سے آراستہ کیا گیا وہاں یہ لباس زیست درد کے بے شمار کالے دھاگوں سیبنا گیا اورپھر آنسووں کے شفاف بہتے پانیوں کی بارشوں میں اسے بگھو کر اہوں سسکیوں حسرتوں کی گرم دھوپ میں رکھا گیا پھر صبر کی ہوا ں میں سکھایا گیا اور فنا کی الگنی پہ ٹانک دیا گیا
اور پھر انتظار کے ہاتھوں میں سونپ دیا گیا …تاکہ مقررہ وقت پر حکم ربی سے اسے مقررہ اجسام کی رگوں میں خون کی آمیزش میں دوڑایا جا سکے اور پھر وقت پورا ہونے پر زندگی کی رگوں سے یہ عطا واپس لے لی جائے کیوں کہ یہاں کوئی بھی شے کوئی بھی وجود ذات جسم روح حسب نسب نام کام ہمیشہ نہیں رہ سکتا ہر چمکتی چیز کو مانند پڑنا ہے ہر عروج کو زوال دیکھنا ہے ہر جوان کو بوڑھا ہونا ہے اور ہر زندگی کو موت کا مزہ چکھنا ہے یہی اصول زیست طے کیا گیا ہے – رداے احساس گر تن زیست کا جبہ ہے تو غم اسکا عمامہ ہے ‘اور پھر انسان کی روح میں یہ سب سمو کر اسے جسم خاکی میں پھونک دیا جاتا ہے –
بقول محترم علامہ اقبال
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے
کیونکے انسان ہونا ہی مشکل ہے اور انسان بن کر انسانیت کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اس سے بھی مشکل لیکن زیست کی فلاح انسانیت میں ہی پوشیدہ ہے ….. یہی راز زیست ہے یہی ساز زیست ہے
تحریر: از شاز ملک