تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
خالقِ کائنات نے اِس دنیا کو جس خو بصورتی ترتیب، تنوع اور رعنائی سے تخلیق کیا ہے اگر غور کریں تو دل و دماغ وجد میں آکر عظیم اکلوتے خالقِ کائنات کی خالقیت کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا پو ری کائنات اور زمین پر خدا کے مظاہر نظارے اس ترتیب اور سحر انگیز خو بصورتی سے پھیلے ہو ئے ہیں کہ جتنا غور کر تے جا ئیں خدا کی عظمت اور عشق میں غرق ہو تے چلے جا تے ہیں ۔ آپ جدھر بھی دیکھیں اُس ذات کے جلوے نظر آتے ہیں صحرائوں کی پراسراریت سکو ت اور سناٹا دریا ئوں سمندروں کی طلاطم خیز مو جیں خا موشی اور خدا کی مو جو دگی کاگہرا احساس جھومتے ہو ئے با غات لہلہاتے ہو ئے کھیت ہر یا لی کی جاذبیت چھٹکی ہو ئی چاندنی اور خنکی پھیلی ہو ئی روشنی اور چاند کی دودھیا روشنی کا ئنات کے چپے چپے کو زندگی دیتی ہو ئی رات کو چھت دریا یا صحرا میں چاند کے دل کش سحر انگیز حسن کو محسوس کر کے دیکھیں سانولی اداس شامیں حسین راتیں اور راتوں کی پراسرار سر گوشیاں اور رخشندہ زندگی بخش سحر سریلے جھرنے ندیاں نا لے دیو ہیکل پہاڑوں سے گرتی دل کش سحر انگیز آبشاریں رقص کر تی مو جیں۔
نیم خوابدیدہ کلیاں نازک رنگ بر نگے دل نشیں پھول پھولوں کی تا زگی ۔ اُن پھولوں پر رقص کرتی رنگ برنگی تتلیاںمیلوں پھیلے سبزا زار ، گلابی سورج کا ڈوبتا منظر جو اُس کی تھکاوٹ کا احساس دلا تا ہے رشک گلاب سحر انگیز زندگی سے بھر پور چہرے گجرالی آنکھیں حنائی ہا تھ ہاتھوں میں نا زک چوڑیوں کی آوازیں کا جل لگی آنکھوں کا مقنا طیسی حسن ، مشکیں نر م و ملائم سنہری زلفیں انسانی نگاہ کے اٹھنے اور جھکنے کے انداز سے بجلی کے کو ندے کا احساس کسی کی سرمہ آلود آنکھ کا ایک نظارا جسم و روح کو سرشاری اور لذت کے اعلی مقام تک پہنچا دیتا ہے۔
کسی کا گلابی آنچل ہوا میں لہرائے تو میلوں تک قوس قزح کے رنگ بکھر بکھر جا تے ہیں دیکھنے والے کو گمان ہو تا ہے کہ شاید سرخ گلاب کے پھول سے رنگ جدا ہو رہا ہے کسی کے چہرے کی دل نشیں مسکراہٹ آپ کے دکھوں کو ایک لمحے میں چاٹ جا تی ہے کو ئی جھانک کر چلمن گرا دے تو دیکھنے والوں کی گردنیں ڈھلک جا تی ہیں کسی شاہکار حسن کی کاجل لگی آنکھیں چاند کی روشنی اور ہیروں کی چمک کو شرما دیتی ہے ۔ کسی کی نیم بار آنکھیں میر تقی میر کو شراب کی مستی بھلا دیتی ہیں اور مرزا سودا کے ہاتھ سے ساغر گرا دیتی ہے ۔ کسی کا آنچل ڈھلک جا ئے تو دل دھڑکنا بھول جا ئے کو ئی ایک نظر بھر کر آپ کو دیکھ لے تو ساری عمر کے لیے قیدی بنا لے کسی کی شرارت بھری مسکراہٹ دل و روح کے عمیق اور بعید ترین گوشوں کو جھومنے پر مجبور کر دے کسی کی مصنوعی نا راضگی آپ کی سانسیں صلب کر لے اور کسی کی نا راضگی آپ کے ہوش چھین لے کو ئی خوبصورت پر ی وش دو قدم چل دے تو شاعروں کو فتنہ محشر یا د آجا ئے۔
کسی کے چہرے پر حیا کے پھول کھلیں تو قوس قزح کا رنگ پھیکا پڑ جا ئے اور اگر محبوب کا مزاج بر ہم ہو تو فانی بد ایوانی کو نبضِ کائنات ڈوبتی ہو ئی محسوس ہو تی ہے اور کو ئی رخ سے نقاب اٹھا دے تو دیکھنے والے سنگی مجسمے کا روپ دھا رلیں اور اگر کو ئی انگڑائی لے تو حسن کے صد رنگ جلوئے میلوں تک پھیل جا ئیں ۔ غرض کا ئنات کا چپہ چپہ خالق کا ئنات کی کاریگری کا مظہر ہے آپ غور کریں تو جیسے جیسے غور کرتے جا ئیں گے اُس خالق کی کا ریگری کے قائل اور عاشق ہو تے جا ئیں گے کائنات کی خوبصورتی میں تنوع اور ترتیب آپ کو اپنے سحر میں جکڑ لے گی اور پھر خدا کی قدرت کا شاہکار حضرت انسان آ پ تا ریخ انسانی کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں ہر دور میں اللہ تعالی نے بہت با کمال انسان پیدا کئے جب بندہ اُن عظیم با صلاحیت انسانوں کو مطالعہ کر تا ہے تو خوشگوار حیرت گھیر لیتی ہے۔
ایسے ایسے حیرت انگیز اور با کمال انسان جو لاکھوں انسانوں پر بھاری تھے لاکھوں انسانوں کی عقل و دانش ایسے انسانوں سے عقل کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ایسے عظیم انسانوں کی چوکھٹ پر ہزاروں انسان اپنے ما تھے رگڑتے نظر آتے ہیں اور پھر جب اِن عظیم انسانوں کا انجام بندہ دیکھتا ہے تو عقل حیرت کے سمندر میں غرق ہو جا تی ہے تاریخ انسانی کے عظیم انسانوں میں سے ایک ایسا ہی کردار تھا لیونا رڈو ڈونچی (Leonardo Davinci) ۔ مونا لیزا (Mona Lisa) کا خالق آپ جب اس انسان کے بارے میں مطالعہ کر تے ہیں تو حیران رہ جا تے ہیں کہ قدرت نے اُس کے ساتھ کس قدر کمال کا اظہا ر کیا اُس کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا وہ تاریخ انسانی کا عجیب اور پراسرار انسان تھا تھری ان ون وہ کمال کا سائنس دان مو سیقار اور مصور تھا۔
وہ دن رات گیلری میں کام کر تا برش اور رنگو ں سے تصویروں میں زندگی کے رنگ بھرتا اور آل ٹائم کامیا ب تصویریں تخلیق کر تا اور جب وہ تصویریں بنا تا تھک جا تا رنگوں سے بو ریت ہو نے لگتی تو برش پھینک کر اپنے میوزک سٹوڈیو کی طرف چلا جا تا جہاں اُس کا گٹار اور ہار مونیم اور با قی آلا ت مو سیقی اُس کا انتظار کر تے اور پھر اُس کی جا دوئی انگلیاں آلات میوزک سے کھیلنا شروع کر دیتیں تو پورا گھر اور سٹوڈیو میوزک کی لہروں سے بھر جا تا اُس کے تاروں سے ایسی سریلی آوازیں نکلتی کہ روح وجد میں آجا تی اور پھر وہ کئی کئی دن مو سیقی سے لطف اٹھا تا اور پھر جب اُس کی انگلیاں اور کا ن تھکنا شروع ہو تے اور اُس کے اعصاب بیزارگی محسوس کر نے لگتے تووہ گٹا ر پھینک کر لیباریٹری میں چلا جا تا۔
جہاں سٹینڈوں پر چڑھی ٹیوبیں اُس کا انتظا ر کر رہی ہو تیں اور پھر وہ کیمیائی ما دوں کے تغیرات اور خواص پر کام شروع کر دیتا نوٹس لیتا تخمینے لگاتا رہتا مختلف مادوں کے ملا پ سے جنم لینے والے نتائج کو جمع اور رقم کر تا اور جب یہ عمل بھی اُس کے لیے کشش کھو دیتا تو وہ تھک کر خود کو نیند کی وادی میں اُتا ر دیتا یا پھر پہلے کام کی طرف چلا جا تا خالق نے اُسے تین مختلف شعبوں میں اعلی درجے کی مہارت اور کمال صلاحیت دے رکھی تھی اِس کے ساتھ ساتھ دونوں ہاتھوں سے ایک ہی وقت میں کام کر نے کی صلاحیت بھی وہ ایک ہی وقت دو کا م کر سکتا تھا ایک سے پینٹ دوسرے سے گٹار یا لکھ سکتا تھا۔
پھر قدرت کا عجیب راز شروع ہو تا ہے ایک رات وہ سویا اور اگلے دن جب صبح اُٹھا تو اُس کے دونوں با زو کندھوں سے انگلیوں تک مفلوج ہو چکے تھے اُس کا یہ فا لج ساری زندگی اُس کے ساتھ رہا وہ گھنٹوں گیلری سٹوڈیو یا لیبارٹری میں خا موشی سے اپنے آلا ت کو بے بسی سے دیکھتا رہتا اور پھر بے بسی سے بہت روتا کہ اُس کے باکمال ہا تھ اور انگلیاں اب حرکت سے قاصر تھے کسی نے اُس سے پوچھا اگر تمھارے ہا تھوں میں حر کت آجا ئے تو سب سے پہلے کیا کرو گے تو وہ بے بسی سے بولا خود کو چھو کر دیکھوں۔ گا
پھر زندگی کی آخری گھڑیوں میں اُس کے کان میں کسی نے سر گو شی کی کہ تمہا ری آخری خواہش کیا ہے تو وہ حسرت سے بولا کا ش میں اپنے ہا تھ سے اپنے چہرے پر بیٹھی مکھی کو اپنی مرضی سے اُڑا سکتا ۔خدا تیرے بھید نرالے جن کو توُ ہی جا نتا ہے۔
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956