تحریر : عظمان آصف
جھوٹے ۔۔شوخے ۔۔۔ فراڈی ، دھوکے باز کہیں کے۔۔۔رکو ذرا آکاش کے بچے تمہیں تو میں بتاتی ہوں،، بولا تھا نا کہ آج مجھے جیتنا ہے! لیکن آپ نے پھر سے ہرا دیا اپنی پری کو ۔۔! جائیے میں نہیں بولتی اب جسے مرضی بنا لیں اپنی پری۔
پیار اور شوخی بھرے انداز میں نیلوفر نے سب بولا تو کیپٹن آکاش نے بھی مسکراہٹ اور مزاح بھرے لہجے میں جواب دیا ”تو آخر ہماری ملکہ عالیہ نے خود ہی ہمیں اِک اور محل بسانے کی اجازت بخش دی۔۔؟ ہوں ! بڑا شوق ہے اِک اور محل بسانے کا ؟ بولیں! بولیں ذرا؟ کیپٹن آکاش کی نوبیا ہتا دولہن نے اپنے آکاش کے گال زور سے پکڑتے ہوئے کہا۔۔”کیپٹن آکاش کا دل اپنی نیلوفر کی بے تحاشا محبت کو آفرین نظر کرنے پر مجبور ہو گیا اور وہ اور اسکی نیلوفر بے ساختہ اِک دوسرے سے لپٹ گئے اور دیر تک اک دوسرے کی دھڑکنیں سمیٹتے رہے،، کیپٹن آکاش کو جیب میں پڑے موبائل کے بجنے کا احساس ہوا تو انہوں نے موبائل نکال کر فون اٹھایا تو اپنے یونٹ کے کمانڈر کی مانوس آواز سنی ، جنہوں نے بتایا کہ ایک مشن کیپٹن آکاش کی واپسی کا منتظر ہے، کیپٹن آکاش سمجھ گئے تھے کہ قدرت نے ایک دفعہ پھر کسی پُر خطر کام کے لیے ان کے نام قرعہ نکالا ہے، ایک دفعہ پھر مادرِوطن نے انہیں انکی اپنی مٹی سے وفا آزمانے کو پکارا ہے،، اور وہ تو اس پُکار پر لبیک کہنے کو ہر وقت مستعد رہتے تھے۔ انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو نیلو فر کا چہرہ اشکوں سے ترپایا۔
نیلو۔۔میری پیاری نیلو۔۔ میری ہمسفر! کیپٹن آکاش نے اپنی نیلوفر کے آنسو پونچھتے ہوئے اسے اپنی بانہوں میں لے لیا، اور اپنی نیلو سے ان آنسوئوںکی وجہ پوچھنے لگے ۔۔! مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے آکاش۔۔ جانتے ہو نایہ سپنے تو ہوتے ہی کانچ کے ہیں، کسی بھی لمحے کِرچی کِرچی ہو کر بکھر جاتے ہیں۔ کیپٹن آکاش اور انکے کمانڈر کی گفتگو سن کر نیلو فر بری طرح لرز کر رہ گئی تھی ، اب وہ سسکیاں لیتے ہوئے اپنے آکاش کو سمجھانا چاہ رہی تھی کہ ابھی تین ہی تو دن ہوئے ہیں کہ ساری زندگی کے بنے سپنوں کی تعبیر ہمارے گھر کی دہلیز پار کر کے آنے لگی۔ کہیں اس کے سپنوںکے شہزادے کو کوئی آنچ بھی آگئی تو وہ سب کیسے سہے گی؟ آکاش ہی تو ہے جو اس کے سپنوں کی دنیا کو آسماں دئے ہوئے ہے ، کہ وہی تو ہے جس کی آغوش میں چھپے بے پناہ پیار اور محبت کے بادل ہر لمحہ اس پر سایہ فگن رہتے ہیں۔۔۔ زمانہ کے مصائب و آلام کی دھوپ سے بچائے ہوئے اس پر خوشیوں کی بوندا باندی نچھاور کرتے رہتے ہیں، اگر اس کے آکاش کو کچھ ہو گیا تو وہ راہِ حیات پے کیسے تنہا کیسے چلے گی۔۔۔؟
نیلوفر! کیا ایسا چاہیں گی آپ کی ہماری پاک مٹی پہ ہی پلنے والے سانپ اغیار کے اشاروں پر ہماری پاک مٹی کے تقدس کو روندھتے ہوئے، ہماری مٹی ۔۔ ہماری پاک سر زمین کے امن کو سبوتاژ کرتے ر ہیں۔ ہمارے اجالوںمیں دھویںکے بادل اٹھیں، ہماری شامیں دھماکوں سے لرزتی ہیں۔۔۔ اور ہماری راتوں کے سینے پر دشمن دندناتا پھرے ، جسے چاہے خاک و خوں میں تڑپاتا رہے؟ کیا کبھی ایسا چاہو گی کہ اپنے آکاش کو تو چھپائے رکھومگر محبت کے رنگوںمیں رنگی اس زمیں پر کتنی ہی دلہنوں سے ان کے سہاگ چھنتے رہیں؟ مہندی لگنے کی منتظر الفتوںاور چاہتوں کو مہندی تو لگے،، مگر خوں کی۔ کیپٹن آکاش یہ سب کہ کر نیلوفر کو قائل کر چکے تھے۔
آخر نیلو فر نے پاک وطن کی بیٹی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے آکاش کی واپسی کی تیاری کے لیے سب کچھ خود کرتے ہوئے آکاش کا حوصلہ بڑھایا اور پھر کیپٹن آکاش کے آرمی کیمپ واپس چلے جانے کے بعد نیلوفر کا ایک اللہ ہی تھا جس سے وہ سارا دن، ساری ساری رات رازونیاز کی باتیں کرتی، جس کے سامنے ساری ساری رات سجدے میں پڑی دل کا بوجھ ہلکا کرتی ۔ ۔۔خوب روتی ۔۔۔آنسو بہاتی ۔۔۔ اور صرف ایک ہی بات کی ضد کرتی کہ اللہ جی آکاش ہر تکلیف سے محفوظ رہے ،اور سلامت واپس آجائے ۔یہ چند دن اس نے آکاش کے بغیر کس قدر اذیت میں گزارے تھے،یہ وہی جانتی تھی یا پھر اس کا رب۔ اسے تو ہنسنا ، مسکرانا ، خوش رہنا جیسے بھول ہی گیا تھا۔ بس وہ تھی ، اس کے آکاش کی یادیں اور اس کے لیے دعائیں۔لیکن مالک الملک شائد ان دونوں بے تحاشا چاہنے والوں کو اس عارضی زندگی کی بجائے جنت کی نہ ختم ہونے والی ، خوشیوں بھری زندگی میں ہمیشہ کے لیے ملاناچاہتے تھے۔
وقت آچکا تھا، کیپٹن آکاش کے لیے دادِ شجاعت دینے کا ، ایفائے عہد کا، وطن کے لیے اور اُس کے باسیوں کے لیے دشمن سے ٹکرا جانے کا اور پھر کیپٹن آکاش مشن پر روانہ ہوتے ہوئے اِک نظر اپنی نیلوفر کی تصویر پر ڈالتے ہیںاور فرطِ محبت سے چوم کر وردی کے سینے پر موجود جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ جوانوں کے ساتھ کچھ اہم باتیں کرتے ہیں،اور پھر جذبہ ایمانی سے لبریزنعرہ تکبیر کی صدا بلند کرتے ہیں توفضاء تکبیر کے فلک شگاف نعروں سے لرز اٹھتی ہے۔ وطن کے یہ جانثار بیٹے شہادت کا لذتوں بھرا جام پینے کو بیتاب۔۔۔ جذبہ جہاد سے سرشار، اپنے وطن کی پاک مٹی کو دہشت گردی سے پاک کرنے اور دشمن کو نیست و نابود کر دینے کے عزائم لیے روانہ ہوتے ہیں، اور جیسے یہ اس علاقہ میں داخل ہوتے ہیں کہ جہاں شریعت کے نام پر شریعت کا نام بدنام کرنے والے ۔۔۔ اسلام کے نام پر اسلام کا چہرہ مسخ کرنے والے، تحریک طالبان پاکستان کے درندوں نے اڈے قائم کیے ہوئے تھے ،یکبارگی کیپٹن آکاش کے فوجی قافلے پر دشمن کی طرف سے راکٹ داغا جاتا ہے اور بے تحاشا فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
کیپٹن آکاش اور ان کے ساتھ موجود تمام جوان جوابی کاروائی شروع کر دیتے ہیں ،میدان ِ کارزارسج جاتا ہے۔ سماعت کو مجروح کرتی دھماکوں کی آوازوں کاسلسلہ چل نکلتا ہے۔ کیپٹن آکاش کی عقابی روح انہیں مورچے سے نکل کر دشمن پر جھپٹ پڑنے پر مجبور کر دیتی ہے، وہ اپنے جوانوں کو دشمن کی طرف سے کیے گئے حملے کی شدت سے نجات دلانے کے لیے آگے بڑھتے ہیں، اور تکبیر کی گونج میںوطن کے دشمنوں کے لاشے تڑپاتے ہوئے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور پھر پسپا ہوتے دشمن کی طرف سے ایک گولی اُن کے نام شہادت کا پیام لیے ۔۔۔ فردوس کے بالا خانوں میں پاکیزہ شراب ۔۔۔ دودھ اور شہد کی انہار کے کناروں پر کھیلتی حوروں کی پیامبر بن کر آتی ہے اور کییپٹن آکاش کو اس دنیا سے دور ،جنت کے محلات میں لے جاتی ہے۔ کیپٹن آکاش اپنے سینے پر زخم کھا کر ۔۔۔ اپنے لہو سے اس مٹی کی آبیاری کر کے شہدا کی صف میں جا کھڑے ہوتے ہیں۔
نیلوفر کے مطابق آج کیپٹن آکاش نے واپس آنا تھا، وہ خوشی سے پھولی نہ سما رہی تھی ۔۔۔ ہر کسی کو بتاتی پھر رہی تھی کہ آج اسکے آکاش نے واپس آنا ہے۔ بے چینی اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے اسکے دل کی دھڑکنیں بے قابو ہوئے جارہی تھیں۔ اس نے آج اپنے آکاش کی پسند کے تمام کھانے بنائے تھے۔ وہ پورے گھر میں بے قرار پنچھی کی طرح تیز تیز قدموں سے ٹہلتی پھر رہی تھی ۔۔۔ مضطرب دِل کے ہاتھوں بے بس باربار دروازے کی طرف لپکتی ،اور پھر مایو س سی ، ویران سی آنکھیں لیئے لوٹ آتی۔ دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے ،اور یہ دیوانہ وار لپک کر جب دروازہ کھولتی ہے تو سامنے آکاش کا جسم سبز ہلالی پرچم میں لپٹے دیکھتی ہے۔ بے جان ۔۔۔ بے حرکت۔ آکاش کی نیلو اپنے آکاش کی اس قدر بے رخی دیکھ کر تڑپ تڑپ جاتی ہے۔
اس بات پر تڑپ اٹھتی ہے کہ اسکا آکاش واپس لوٹا تو اس قدر بدل چکا کہ اس نے بڑھ کر اپنی نیلو کو نہ بانہوں میںاٹھایا اور نہ ہی سینے سے لگاکر اس کی بے ترتیب دھڑکنوں کو سلجھایا ۔ آخر مجبور۔۔۔ بے بس وہ اپنے آکاش سے لپٹ جاتی ہے ، اور اشکوں کی زباں سے اسکی بے وفائی کے سارے شکوے کر ڈالتی ہے ، سسکیوں اور دبی دبی آہوںکی صورت اس سے خوب خفتگی اور ناراضگی ظاہر کرتی ہے۔ وہ اپنے آکاش کو جھنجھوڑتے ہوئے اسے اس کے بے وفا ہونے کا احساس دلاتی ہے ۔اپنے آکاش کے پُرنور چہرے کو چومتے ہوئے ۔۔۔ ڈگمگاتی آواز سے اسے کہتی ہے ۔۔۔”آکاش کے بچے ! تم نے تو واقعی مجھے چھوڑ کر جنت میں اور پریاں بنالیں، ،فردوس میں اِک اور محل بسا لیا”۔اب نیلوفر ہر وقت اپنے آکاش کی یادوں کے سمند ر کے کنارے کھڑی ،، اپنے آکاش سے جدائی کی طوفانی موجوں سے الجھتی رہتی ہے۔
اور زبان حال سے کہتی رہتی ہے۔۔
اَے ارضِ پاک جسے تو نے پکارا تھا
وہ شخص مجھے جان سے بھی پیارا تھا
راہ حیات پے تنہا کیسے چلوں گی۔۔؟
وہ میری امید سحر، میری رات کا روشن ستارہ تھا
وہ چاند چہرہ ، ہنستے لب، بولتی آنکھیں
وہ جس کا پل پل میں نے صدقہ اُتارا تھا
میں نے تن من وار دیا جس پے ہار کے خود کو
اَے ارضِ پاک اس نے خو د کو تجھ پے وارا تھا
وہ دیوانہ تیرے عشق میں کتنا جنوں خیز نکلا
اس نے تیری صبح کو اپنے لہو سے نکھارا تھا
اَے ارضِ پاک تو نے جسے پکارا تھا
وہ شخص مجھے جان سے بھی پیارا تھا۔
تحریر : عظمان آصف