سیاست میں اتار چڑھائو آتے رہتے ہیں ۔ کبھی انسان کو اچھا وقت دیکھنے کو ملتا ہے تو کھبی انتہائی مخدوش حالات سے واسطہ پڑتا ہے۔ مگر جو ان حالات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہو۔ کٹھن ترین مرحلے صبر کے ساتھ برداشت کر جائے اسے مرد آہن کہتے ہیں۔ایسے ہی ایک مرد آہن کے ساتھ گزشتہ دنوں ملاقات کا موقعہ ملا ۔ جس نے اپنی پارٹی کے ورکروں کو مایوسی کی گہرائیوں سے نکال کر بہت مستحکم جگہ لاکھڑا کیا ہے۔ ایساسیاسی ورکر جو ایک عام سیاسی ورکرکے طور پر کام کرتا ہوا پارٹی کی اہم ترین پوزیشن پر پہنچ گیا۔آمروں نے اسے اور اسکی پارٹی کو کبھی پسند نہیں کیا ہمیشہ اس کو تین سیاہ ترین مارشل لائ کے ادوار میں نشانہ بنیا گیا۔ اس کے خاندان کو دھمکیاں ملیں یہاں تک کہ اس کا ساتھ دینے والوں پر بھی عرصہ حیات تنگ کیا گیا مگر وہ شخص اپنی پارٹی اور اپنے نظریے کے ساتھ کھڑا رہا ۔چند سال پہلے جب لوگ اس بات کو پورے یقین کے ساتھ بیان کر رہے تھے۔اور لوگ پورے وثوق کیساتھ تمام میڈیا چینلز اور اخبارات پر چیخ چیخ کرپاکستان پیپلز پارٹی کے خاتمے کی نوید سنارہے تھے ۔ مگر حیرت ہےاس شخص کے حوصلے اور عزم کی کہ یہ ایک صبر اور استقامت کی تصویر بنا خطہ پوٹھوہار میں بھٹو شہید کا علم تھاما رہا اور اس نے آمریت کا سیاہ ترین دور آئیسولیشن میں گزارا۔
خاموشی کے ساتھ دس طویل ترین سال گزارے اور پھر وہ وقت آیا جب اس کی شہید لیڈر نے اس دھرتی پر قدم رکھے اور اس سے کہا !کہ مجھے کہا گیا ہے کہ تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ تم چلی جائو یہاں سیاست سے دور ہو جائو۔مگر اس شخص نے اپنی لیڈر کا ساتھ بھی دیا ور کہا کہ ہم کبھی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔یہ تھے جناب سیکرٹری جنرل پاکستان پیپلز پارٹی سید نئیر حسین بخاری جو ادنیٰ سے ورکر کے طور پر سیاست میں آئے ۔ پھر انتخابات میں حصہ لیا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ سینیٹ کے چیئرمین بنے۔ اور ایشین سینیٹرز کی بھی سربراہی مل گئی۔یہ ہوتے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے ورکرز ، جیالے جن کو آپ کوئی بھی نام دیں مگر یہ لوگ اپنی مثال آپ ہیں۔ دنیا کی کسی پارٹی نے اتنی شہادتیں نہیں دی ہونگی جتنی شہادتیں پاکستان پیپلز پارٹی کے ورکروں نے دی ہیں۔ بلاشبہ سید نیئر حسین بخاری سابق چیئرمین سینیٹ ایک مرد آہن کے طور پر خود کو منوا چکے ہیں۔یہ محترمہ شہید کی سالگرہ کی تقریب تھی بظاہر بہت سادہ مگر پروقار جوکہ برادرم سید راحت کاظمی صاحب نے بڑے پیار سے ترتیب دی تھی اور اس میں تمام پاکستان پیپلزپارٹی کے سرکردہ راہنمائوں کو مدعو کیا۔
مقامی ہوٹل میں پروقار تقریب کے دوران جب سید نیئر حسین بخاری صاحب سے گفتگو کا موقع ملا تو وہ ایسے ملے جیسے ہم ایک دوسرے کو صدیوں سے جانتے ہوں رسمی گفتگو کے بعد جب ان سے انتخابی مہم کا پوچھا گیا اور پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکردگی پر بات ہوئی تو وہ مسکرائے اور کہنے لگے پنجاب ہمیشہ سے محنت کشوں کا تھا اور رہیگا اور تمام محنت کشوں کا ایک ہی سہارا ہے اور وہ شہید بھٹو کی پارٹی ہے۔ان کے بقول ابھی پارٹی نے صرف انگڑائی لی ہے اور پنجاب میں ان کے مخالفین پریشان ہو چکے ہیں ان کی منصوبہ بندی کے مطابق خطہ پوٹھوہار میں اب پاکستان پیپلز پارٹی بھرپور کردار اداکررہی ہے اور انشااللہ پنجاب میں اپنی عظمت رفتہ بحال کرچکی ہے۔ انہوں نے وکروں کے مسائل کو انتخابی مہم کی بہ نسبت زیادہ اہمیت دینے کی تلققین کرتے ہوئے ضلعی اور تحصیل تنظیموں کے سربراہان کو تاکید کی کہ انہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے ورکروں کی شکایات کا ازالہ جلد سے جلد کر کے رپورٹ دی جائے ۔ یہ ہیں لیڈر جو کہ پچھلے پانچ سال سے اپوزیشن میں ہونے کے باوجود آج بھی انتخابات کے بجائے اپنے ورکرز کی بات کرتے ہیں۔تمام پارٹیوں میں دیکھیں تو اقلیتوں اور مزدوروں کو پارٹی میں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں کرشنا کماری جیسی متوسط طبقے کی نمائندہ سینیٹر کے عہدے پر پہنچ جاتی ہے اور باقی پارٹیوں میں چوہدری نثار، زعیم قادری، علی محمد خان وغیرہ جیسے مخلص لیڈروں کو بھی دھول چاٹنی پڑتی ہے۔سید معارف الحسنین ایڈیٹوریل اسسٹنٹ روزنامہ جنگ راولپنڈی