دنیا کے مشہور ترین جوئے خانوں کا مالک، بزنس ٹائیکون اور ‘جواریوں کا کروڑ پتی بادشاہ’ کہلائے جانے والے شخص اسٹینلی ہو کا گزشتہ روز انتقال ہو گیا ہے۔ ان کی عمر 98 برس ہو چکی تھی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق اسٹینلی ہو کے خاندان نے ان کی موت کی تصدیق کی ہے۔
اسٹینلی ہو نے انتہائی غربت میں آنکھ کھولی تھی لیکن ترقی کرتے کرتے وہ ‘بزنس ایمپائر’ قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ 1921 میں ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے تھے لیکن بعد ازاں وہ مکاؤ منتقل ہو گئے تھے۔
مکاؤ ایک چھوٹا سا نیم خود مختار خطہ ہے جو چین کے زیرِ انتظام ہے۔ ماضی میں یہ پرتگال کی کالونی ہوا کرتا تھا۔ یہاں جوئے خانوں کی بہتات ہے، اسی لیے مکاؤ کو جوئے کا سب سے بڑا عالمی مرکز کہا جاتا ہے۔ مکاؤ چین کا وہ واحد خطہ ہے جہاں جوا کھیلنے کے لیے کیسینو جانے کی اجازت ہے۔
اپنی زندگی کے ابتدائی عرصے میں اسٹینلی ہو کا واحد ہدف تعلیم کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنا تھا لیکن جب وہ 13 برس کے تھے تو ان کے والد اسٹاک مارکیٹ میں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر ویتنام فرار ہو گئے تھے۔
اسی دوران دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی تو اسٹینلی ہو کو اپنا تعلیمی سلسلہ ادھورا چھوڑ کر محنت مزدوری کرنا پڑی۔
برطانوی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ سے ایک بار گفتگو کرتے ہوئے اسٹینلی ہو نے کہا تھا کہ میں بہت غریب تھا اور میرا کل سرمایہ صرف 10 ہانگ کانگ ڈالرز تھا جس سے میں نے کام شروع کیا۔ ابتدا میں مکاؤ میں ملازمت کی اور اسی ملازمت کے تجربے کی بنیاد پر اپنی ٹریڈنگ کمپنی کھولی۔
اسٹینلی ہو کو کیسینو کا ‘گاڈ فادر’ بھی کہا جاتا تھا۔ وہ ایشیا کے امیر ترین افراد میں شامل تھے۔ مکاؤ منتقلی کے بعد انہوں نے ایک فلیگ شپ کمپنی ‘ایس جے ایم ہولڈنگز لمیٹڈ’ قائم کی اور اس سے ہونے والی آمدنی سے وہ ایک کے بعد ایک کیسینو قائم کرتے چلے گئے۔
ان کے بڑھتے کاروبار کی وجہ سے مکاؤ جوئے کا اتنا بڑا مرکز بن گیا کہ امریکہ کا شہر لاس ویگاس بھی اس سے پیچھے رہ گیا جو اس سے قبل جوئے خانوں کا بڑا مرکز سمجھا جاتا تھا۔
‘ایس جے ایم ہولڈنگز لمیٹڈ’ کے اثاثوں کا تخمینہ چھ ارب ڈالرز لگایا گیا ہے۔ یہ کمپنی اسٹینلی ہو کی ایک اور کمپنی ‘ایس ٹی ڈی ایم’ کا حصہ ہے جو لگژری ہوٹلوں سے لے کر ہیلی کاپٹرز اور گھوڑوں کی ریس تک، ہر چیز میں حصہ دار ہے۔
‘بلوم برگ’ کے مطابق اسٹیلنی ہو کے بزنس ایمپائر کے اثاثوں کی مالیت 14 اعشاریہ 9 ارب ڈالرز ہے۔ تاہم 2011 میں اس ایمپائر کے شراکت داروں میں پھوٹ پڑ گئی تھی۔ لیکن اس سے پہلے کہ اختلافات کی خبریں اخباروں کی شہ سرخیاں بنتیں، تمام شراکت داروں میں ایک معاہدہ طے پا گیا تھا۔
اسٹینلی ہو کی کمپنی کو اس وقت سب سے زیادہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا جب 2014 میں چینی صدر شی جن پنگ نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ مکاؤ میں قائم تمام جوئے خانوں کو اس سے بہت نقصان پہنچا۔
جوئے کی آمدنی میں کرونا وائرس کے سبب بھی نہایت کمی واقع ہوئی ہے لیکن ایس جے ایم ہولڈنگز سمیت تمام بڑے جوئے خانوں کے مالکان کے پاس دولت کی کوئی کمی نہیں۔ ان کا خطیر سرمایہ آج بھی بینکوں میں محفوظ ہے۔
اسٹینلی ہو ریٹائرمنٹ کے سخت خلاف تھے لیکن ایس جے ایم کے قانونی معاملات اور تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے وہ 96 سال کی عمر میں 2018 میں کمپنی کے اعلیٰ ترین عہدے سے ریٹائر ہو گئے تھے۔
اسٹینلی ہو کی چار بیویاں اور 17 بچے ہیں۔ ان کی ایک بیٹی پینسی کے علاوہ ان کے دیگر بچے مختلف کاروباروں سے منسلک ہیں۔ ان کا ایک بیٹا لارنس بھی کیسینو چلاتا ہے جب کہ بیٹی پینسی والد کے دور سے ہی مکاؤ، ہانگ کانگ اور چین کے درمیان چلنے والی بحری جہاز کی صنعت سے وابستہ ہیں۔
دنیا کے مشہور ترین جوئے خانوں کا مالک ہونے کے باوجود اسٹینلی ہو کے بارے میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خود جوئے سے کوسوں دور رہتے تھے۔ جی ہاں، کیسینو کنگ اسٹینلی ہو نے کبھی جوا نہیں کھیلا جب کہ وہ اپنے قریبی رشتے داروں اور دوستوں کو بھی جوئے سے دور رہنے کا مشورہ دیتے تھے۔
اسٹینلی ہو نے 1999 میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ میں ہمیشہ اپنے بچوں اور دوستوں کو کہتا ہوں کہ خدارا جوا مت کھیلنا اور جوئے سے دور رہنا۔