تحریر: ایم آر ملک
لفظوں سے راکھ اڑنے لگی ہے اور وقت کی بے رحم گھڑیاں ہمارا مقدر ہو گئیں ہیں۔ سوچیں پا بہ جولاں ہیں کہ ہمارے آلام کو دہشت گرد سہارا دے رہے ہیں وحشتوں کا رقص ہے کہ رکنے میں نہیں آرہا روشنیوں اور پھولوں کے شہر پشاور سے لیکر جنوبی وزیرستان تک محافظوں اور وطن کے باسیوں کا لہو بہہ رہا ہے کیا پر کیف دھڑکنوں کی جگہ اب ہماری سماعت چیخ و پکار اور چنگھاڑکی عادی ہو چکی ہے ؟لاشیںاٹھا اٹھا کر اب ہمارے ہاتھ شل ہو چکے ہیں سلیم راہی کہتا ہے
مائیںاپنے بچوں کے بستوں میں کفن رکھنے لگی ہیں ہم کس دور میں زندہ ہیںمیں اپنے اکثر دکھ محب وطن دوستوں سے شیئر کرتا ہوںوہ دھرتی کے بیٹے مجھ سے پورپور زخمی دھرتی کی باتیںکرتے ہیں کہ جس کا انگ انگ زخموں سے چور ہے زندہ دلوں کے شہر میں جب انسانیت کش حملے ہوئے ،سانحہ پشاور ،اب سانحہ حیات آباد ہوا ، شہید ثناء اللہ نیازی ،کرنل توصیف کی لاش اپر دیر میں گری تو میں نے محب وطن افراد کے چہرے پر اندر کا دکھ دیکھا جوآنکھوں سے آنسوئوں کی صورت چھلکتا ہے اور کرب بن کر چہرے پر خوف کی شکل اختیار کر جاتا ہے
وطن کے لوگو! کیا ایسا نہیں کہ ہم اپنے وجود کو کھوجنے کی دھن میں اپنے بدن کی سیاہ گہرائیوں میں اترتے جا رہے ہیں،مقید ہوتے جا رہے ہیں
کبھی کیری لوگر بل کی شکل میں،کبھی پریسلر ترمیم کی شکل میںاور کبھی نیٹو سپلائی کی بحالی پر اور کبھی انڈیا سے تجارت پر ہمیںلولی پاپ دے کر بہلایاجا رہا ہے اندھیروں کی اس قید سے نکلنا اب شاید ممکن نہیں رہا
حکمران کہتے ہیں بہت سی مجبوریاں ہیںیا مجبوریوں کا ایک حصار ہے مگر لہو لہو دھرتی کے جسم کے اندھیروں کی بھوک اب ہم سے روشنی مانگتی ہے ڈاکٹر شیر محمدکہتا ہے بعض دکھ اتنے خاموش ہوتے ہیں کہ انسان رو رہا ہوتا ہے اسے پتا بھی نہیں چلتا سطرسطر آہٹیں اتر تی ہیں اب ہم دل کے محتاج نہیں رہے اس کی بادشاہی سے اب ہم نے نجات حاصل کرلی ہے ہمارایہ عالم ہے ہر سانس کے ساتھ خیرات مانگتے ہیںاک بے حسی ہر احساس پر طاری کر لی ہے سانسوں سے اب وحشت ہونے لگی ہے
لمحے پرائے ہورہے ہیںاور وطن عزیز میں زندگی کی بیڑی بارود سے بھری جارہی ہے رگ رگ میں لہو کی جگہ پارا سا تڑپتا محسوس ہوتا ہے ، خیالات سلگ رہے ہیںحساس لوگ زندہ ہیں تو ایسے جیسے جسم سے روح نکل جائے۔ دل کا آئینہ کرچی کرچی ہواور خود کو سمیٹتے ہوئے ہاتھ لہو لہان ہوجائیں۔ آرزو امید امنگ کے کینوس پر بنا ہر منظر کہر آلود ہورہا ہے اور اسے اجالنے کی ہر کوشش رائیگاں جارہی ہے ۔
ہر حکمران پرانے وعدوئوں کی لاش پر بیٹھ کر نیا وعدہ کرتا ہے لاشوں کا کاروبار کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے نو عمر نوجوان ناپاک روحوں کے کاروبار کا ایندھن بن رہے ہیں درس گاہوں سے اچاٹ نو عمر صورتیں ہیں جنہیں دیکھ کر دل میں اک ہول اٹھتا ہے اک دعا ہونٹوں پہ مچلتی ہے اِک دُعا دل میں ہلکورے لیتی ہے زندہ دلوں کے شہر میں خود کش حملوں میں نو عمروں کے سر ملے ہیں
اے وطن کے باسیو! ہاتھ اٹھائیں کہ پھر کوئی نو عمر انسانیت دشمنوں کی بھینٹ نہ چڑھے کسی نوعمر کی ماںکے ہونٹوں پہ دھری آگ ہماری آنکھیں نہ دیکھ سکیںکسی ننھے کے مستقبل کو مسمار ہوتا محسوس نہ کریںدکھی کرنے والا کوئی معمار وطن دھواںدھواںنہ ہو ہم ان کو کتابیں پڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں ہم ان کو ریاضی دان ،سائینسدان بنتے دیکھنا چاہتے ہیں ہم ان کو خودکش جیکٹیں پہننے کی بجائے سفید یونیفارم میں ملبوس دیکھنا چاہتے ہیں ہم ان کو قائد اعظم کا تعلیمی مقصد بنانا چاہتے ہیں
ان کی سوچیں اور خیال کچے دھاگوں کی طرح ہیںجو الجھ جائیں تو ٹوٹ جاتے ہیں ۔ امریکیت کی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کے سمجھوتے کی کرچیوں سے لہو لہودل اور آنکھیں اشک بار ہیں ۔امر یکیت کے ساتھ برسوں کا یہ تعلق اب بوجھ بن گیا ہے جب تعلق بوجھ بن جائے تواس کا ٹوٹنا نوشتہ دیوار ہوا کرتا ہے کچھ درد اور جذبے ایسے ہوتے ہیں جن کے اظہارکے لیے الفاظ کھو سے جاتے ہیں ۔ہمارے حکمرانوں کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ اب اس تعلق کی بے گور وکفن لاش کو گھسیٹتے پھرنا عوامی جذبوں کی توہین ہے
کل ہم نے امریکیت کی جنگ افغان سر زمین پر لڑی اور روس کو پاش پاش کرنے کا کارنامہ سر انجام دیاآج اسی کی جنگ ہم اپنی سر زمین پر لڑ رہے ہیں کل کے مجاہد آج کے دہشت گرد ہیں اس اختراع کا پس منظرمشرف سے لے کر موجودہ حکمرانوں تک کسی نے نہیںکھوجااپنے ازلی آقا سے یہ پوچھنے کی جسارت کسی نے نہیں کی کہ یہ دہشت گرد کل روس کے خلاف کس نے پیدا کیے اور کون ان کا ہر اوّل بنا ؟
آنکھوں کے چراغ کون لے گیاکہ منزلوں کا نشان گم ہورہا ہے انسانیت بین کرتی سر بازار آگئی ہے صحن وطن میں بارود کی جو فصل امریکہ نے بوئی اسے کاٹتے کاٹتے جانیں کتنے بے گناہ معصوم لوگ اور ہمار ے لیڈر تہہ خاک ہوجائیں گے۔
تحریر: ایم آر ملک