تحریر: ذیشان حسین
نماز پڑھنے سے پہلے نیت اور ارادہ کا کرنا جس طرح ضروری ہوتا ہے اسی طرح کچھ بھی لکھنے سے پہلے اس کی تمہید باندھنا ضروری ہوتا ہے تاکہ پڑھنے والے کو ایک دم سے ہی بے زاری یا مصنف کی رائے سے اختلاف نا ہو، تمہید باندھنے کا اصل مقصد پڑھنے والے کو دماغی طوپر ر تیار کرنا ہوتا ہے تاکہ مصنف اپنا موقف اچھے طریقے سے بیان کر سکے۔
آج تک جتنی بھی تحریریں پڑھیں سب میں تمہید کے عنصر کو لازمی جز پایا،پر آج جب خود کچھ لکھنے لگا تو سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ کیسے اور کہاںسے شروع کروں اپنا موقف بتانے کے لئے کیا تمہید باندھوں، آج جب لکھنے لگا تو یہ اندازہ ہوا کسی کی تحریر کوپڑھنا اور پڑھ کر یہ کہنا کہ کتنی امیچور اور بچکانہ تحریر ہے بہت ہی آسان ہے ،بر عکس اس کے کہ آپ خود کچھ لکھیں ،بات کہا ںسے کہا ںنکل گئی تو بات کر رہا تھا ”تمہید” کی کہ میں جس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہواس کی شروعات کہاں سے کرو ںکیا تمہید باندھو ںکیونکہ میرے دماغ میں تو کچھ باتیں تھیں جو آپ تک پہنچانہ چاہتا ہو ںاور میری نا قص سمجھ کہہ رہی ہے کہ جو کہنا چاہتے ہو کہہ دو تکلفات کے چکر میں پڑنا ضروری تو نہیں۔
تو اسی کے ساتھ میںاس فیصلے پر پہنچا کہ آپ سے جو کچھ کہنا چاہتا ہوں صاف صاف اور دو ٹوک کہہ دوں بغیر کسی تمہید کے کیونکہ الفاظ کی شدید کمی ہے ۔میں جن دو تین موضوعات پر بات کرنا چاہتا ہوں ان میں سے ایک ”فیس بک پہ فرانس کے جھنڈے کو کور فوٹو بنا کر اظہا ر مذمت ہے”۔پیرس پر حملے کا افسوس ہر انسان کو ہے اور ہر ایک فرد جو انسان ہونے کا دعویدار ہے وہ اس حملے کی بھر پور مذمت بھی کرے گا کیونکہ خون انسانیت کا ہوا ہے اور انسان دنیا کہ جس کونے میں بھی ہو ایک ہی اہمیت اور حیثیت کا حامل ہے۔
حملہ کے فوراْ بعد ہی فیس بک نے اظہار مذمت کے لئے فرانس کے ترنگے کو کور فوٹو بنانے کے لئے کہا، جیسا کہ میں پہلے ہی یہ کہہ چکا ہوں کہ پیرس پر ہوئے حملہ کی ہر شخص مذمت کرتا ہے میں بھی ان میں سے ایک ہوں لیکن میری ناقص عقل یہ بات ابتک سمجھنے سے قا صر ہے کہ کیا یہ دنیا کا پہلا حملہ ہے ؟یا اس سے پہلے جہاں،جہا ںبھی حملے ہوئے یا تو وہ حملے نہیں تھے ؟یا تو پھر جن کی اموات ہوئیں اور جو زخمی ہوئے وہ انسان ہی نہیں تھے کہ ان کی اموات پر بھی اسی طرح مذمت کی جائے؟کیا یہ کھلا تضادنہیں ؟کیا یہ دوہری پالیسی نہیں کہ جب ایک مسلمان کے ساتھ زیادتی اور ظلم ہو رہا ہو تو اس پر کوئی توجہ نہیںاور جب یہی حملہ ایک غیر مسلم پرہو تو فیس بک تک کو اظہار افسوس اور مذمت کرنا یاد آجاتا ہے۔
کیا یہی انسانیت ہے ؟کیا یہی پالیسیاں ہیں؟کیا یہی انصاف کا تقا ضہ ہے ؟کیا ایران،ایراق،افغانستان ،شام ،مقبوضہ کشمیراور نہ جا نے ایسے کتنے ہی ممالک ہیں جن میں مارے جانے والے نا حق مسلمانوں کا نام انسانوں کی فہرست میں نہیں آتا؟ ،کیا یہ لوگ اس قابل نہیں کہ ان کی اموات پر مذمت یا اظہار افسوس کیا جائے؟کیا ان کی اموات کوئی معنی نہیں رکھتی؟کیا مغربی ممالک میں مقام پذیر افراد ہی انسان ہونے کا ٹیگ لئے ہوئے ہیں؟مجھے ہرگز ہرگز اعتراض نہیں کہ پیرس میں ہونے والے حملہ کی مذمت پہ لیکن میرا سوال تو صرف اتنا ہی ہے کہ کیا انسانی حقوق کے نام پر یک طرفہ طرف داری کرنا ٹھیک ہے؟دوسری بات یہ کہ جس پر میں اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہوں وہ ہے میڈیا کا کردار ،ہمارے ملک میں جب کبھی کوئی حادثہ پیش آجائے تو ہمارا میڈیا بریکنگ نیوز کے نام پر حادثے کی تصاویر اور ویڈیوز دکھانا شروع کر دیتا ہے ،اس بات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہ عوام پر اس کا کیا اثر پڑیگا ؟عوام اپنے پیاروں کی دردناک حالت دیکھ کر کیا محسوس کریں گے ؟ہمارے میڈیا کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔
برعکس اس کہ پیرس میں ہونے والے حملہ میں کیا آپ نے پیرس کے میڈیا کا کردار دیکھا کس طرح سے انہوں نے خبر عوام تک پہنچائی ،سب سے پہلے تو انہوں نے جارحانہ تشدد ہوتے ہوئے عوام کو دکھایا ہی نہیں کہ عوام مزید پریشان نہ ہو ںاور اموات اور زخمیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کے چہرے کس قدر دکھ اور افسوس سے بھرے ہوئے تھے ،کتنی خاموشی اور دکھ سے یہ خبر انہوں نے عوام تک پہنچائی اور دہشت گردی کو پروموٹ کرنے کی بجا ئے صرف خبر ہی عوام تک پہنچا ئی اور پاکستانی میڈیا کا حال تو یہ ہے کہ بریکنگ نیوز کے نام پر ہر طرح کی خبر عوام تک گلے پھاڑپھاڑ پہنچانا ضروری سمجھتے ہیں اور مرچ مصالحہ لگانا بھی اولین فرض سمجھتے ہیںاور یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کا عوام پہ کیا اثر پڑیگا وہ کس طرح سے ری ایکٹ کرے گے ،ان کو تو بس ریٹنگ بڑھانے سے مطلب ہے۔
ان کا موقف تو صرف سنسنی پیدا کرنا اور اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھانے کے سوا اور کچھ نہیں ۔کیا عوام کے جذبات اور احساسات سے بڑھ کر اپنی ریٹنگ بڑھانا ہے ؟ویسے تو میڈیا کی ڈیوٹی صرف سچ اور حق پہنچا نا ہے لیکن اپنے چینل کی ریٹنگ کو بڑھانا، عوام کے جذبات اور احساسات سے بڑھ کر ہے ،وہ کہتے ہیں نا کہ بات تو ترجیحات کی ہوتی ہے جیسی آپ کی تر جیحات اس کے مطابق آپ کا عمل ہوتا ہے ۔گھر میں بیٹھی خواتین اور بچے بم پھٹنے کی خبر سن کے اور ان میں اپنے خاوند ،بھائیوں اور باپ کو تلاش کرتی پھرتی ہیں ،اور اگر خدا نخواستہ ان میں انکا اپنا کوئی نظر آجائے تو جس حالت سے لواحقین دو چار ہوتے ہیں وہ بتانے سے قاصر ہوں۔آپ خود اسکا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب آپکا کوئی آپ سے دور ہوتا ہے تو کیا حالت ہوتی ہے؟آج میرا دوسر ا موضوع ”عمران خان اور ریحام خان کی طلاق ہے ۔” عمران خان اور ریحام خان کی طلاق کتنا بڑا اور اہم ایشو ہے کہ پندرہ سے زائد دن گزرنے کے با وجود میڈیا کا پیٹ بھرنے میں نہیں آ رہا۔
عمران خا ن کو کتوں سے پیار تھا یہاں تک کہ مجھے ایک کتے سے پیار بھی ہو گیا ،عمران بالکل بھی رومینٹک نہیںتھے،شادی کی چوڑیاں تک خرید کر نہ دیں، ان کے پاس سیاست کے سوا کچھ نہ تھا بات کرنے کے لئے پورا پاکستان سسرالی بنا رہا،جب الزام تراشی کی باری آئی تو کسی نے ساتھ تک نہ دیا” وغیرہ وغیرہ۔ خبروں پہ خبریں چلانا بریکنگ نیوز کہ نام پر عوام کو الو بنا نا ،ہر چینل کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہر خبر ہم سب سے پہلے آپ تک پہنچا رہے ہیں ۔میں اس بات سے بالکل اختلاف نہیں کرتا کہ عمران خان اور ریحام خان کی طلاق خبر نہیں تھی لیکن اب جس طرح سے میڈیا اس بات کو بریکنگ نیوز بنا بنا کہ پیش کر رہے ہیں۔
اس سے تو صرف یہ ہی ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کی سی سب سے اہم ترین خبرطلاق کہ بعد عمران خان اور ریحام خان کے بیانات ہی ہیں بس،صرف بریکنگ نیوز پر ہی دم نہی لیا بلکہ کئی چیلنوں اور اینکر حضرات نے اس پرپورے پورے پروگرام بنا ڈالے اور تو اور طلاق کو لیکر سیاست دان اپنی اپنی سیاست چمکانے لگے ،مجھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ بس صدیوں سے سب اسی ایک خبر کے انتظار میں تھے ۔طلاق ہونا تھی ہوگئی ریحام اور عمران دونوں اپنی اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کر چکے پر نہ جانے ہمارے میڈیا اور سیاستدانوں کی دکان کب بند ہوگی؟کب یہ اس حصار سے باہر نکلیں گے؟۔
تحریر: ذیشان حسین
برائے رابطہ: 0333-7368644