تحریر : شاز ملک
میری بیٹی سے شادی کرنی اتنی آسان نہیں ہے ناصر خان اسکے تو بارے امیدوار ہیں، ادھیڑ عمر کی نگار خانم نے فخریہ انداز میں مسکرا کر پاس بیٹھی نوجوان بیٹی کی طرف دیکھا اور آنکھوں سے اشارہ کیا مجھ سے شادی کرنی ہے تو میری شرطیں ماننی ہوں گیں صبا نے اٹھلا ادھیڑ امر کے ناصر خان کی طرف دیکھا جو اسے محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہویے اسکی ادا وں کو نظروں سے سراہ رہا تھا مسکرا کر بولا ساری شرطیں منظور ہیں مگر میں اپنی بیوی کو طلاق نہیں دونگا صبا نے ماتھے پر تیوری ڈال کر تیکھے انداز میں پوچھا کیوں؟۔
مسکراہٹ ناصر خان کے چہرے سے غائب ہو گی وہ بولا وہ خاندانی عورت ہے میرے خاندان والے میری جان کے دشمن بن جاہیں گے وہ میرے دو بیٹوں کی ماں ہے میں اسے چھوڑ نہیں سکتا تم کوئی اور شرط بتاؤ بیٹی کے پاس بیٹھی ہوئی نگار خانم نے آنکھوں میں اشارہ کیا اور اٹھ کر کمرے سے باہر چلی گی صبا ماں کی نظروں کا اشارہ سمجھ کر اب ناصر خان کے قریب صوفے پر بیٹھ گی پھر بولی ایک بات مانو گے ناصر خان اسکے لباس سے اٹھتی مہک سے مسحور ہو رہا تھا بولا ضرور مانوں گا۔
وہ اٹھی اور ساتھ والے ملحقہ کمرے میں یہ کہتی ہوئی چلی گی میں ابھی آتی ہوں چند لمحوں میں واپس آی تو غلاف میں ڈھاکہ ہوا قرآن اسکے ہاتھوں میں تھا اور ناصر خان کے سامنے کھڑی ہو کر بولی اس قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھایئے کے آپ کبھی اپنی پہلی بیوی کے پاس نہیں جائیں گے۔
ایک لمحے کے لئے ناصر خان سن ہو گیا بھنا کر بولا یہ کسی شرط ہے صبا نے اسکے قریب جھکتے ہویے بھرائی آواز میں کہا اگر یہ قسم نہیں اٹھائیں گے تو میں بھی قسم اٹھا کر کہوں گی کے آپ سے کسی قیمت پر شادی نہیں کرونگی اور اگر شادی کے بعد آپ اسکے پاس گئے میں آپکو اسی دن چھوڑ دو نگی ناصر خان کی نظریں اسکے سراپے میں الجھنے لگیں ایک دم اسکا ہاتھ پکڑ کر بولا ٹھیک ہے لاؤ میں قسم اٹھاتا ہوں صبا کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ پھیل گی۔
ایک مرد ہار گیا اور ایک عورت پر ایک دوسری عورت غالب آ گی اور دورکھڑا شیطان قہقہے لگا کر ہنس رہا تھا پھر اس نے نفرت سے ایک طرف تھوک دیا اور اپنے ساتھ کھڑے شیطان چیلوں سے کہنے لگا *دیکھا آج میں نے پھر عورت کو ہتھیار بنا کر آدم کے بیٹے کو ورغلا لیا بیشک ایسی عورتیں ہی میری آلہ کار ہیں اور پھر چاروں طرف شیطان کی مکروہ ہنسی آسیب بن کر پھیل گئی۔
تحریر : شاز ملک