مندرہ( خصوصی رپورٹر) مندرہ سے بھاٹہ روڈ شدید خستہ حالی کا شکار ھے جس پر گاڑیاں ہی نہیں بلکہ پیدل چلنے والوں کو بھی مشکلات کا سامنا ھے یہ مین روڈ ھے دو یونین کونسلوں کا یونین کونسل نوردولال اور یونین کونسل کوری دولال کا یہ روڈ 28 گاؤں کی آمد و رفت کا ھے جو مندرجہ ذیل ہیں گاؤں ماہندر ۔ڈھوک بھوڑی والی ۔دھوک لودرھاں ۔کمادریال۔موہڑہ بنجینیال۔موہڑہ پیروں ۔ڈھوک چوھان ۔بسلہ بنگیال ۔راضی حسنال ۔ڈھوک باباحسین۔نوردولال۔ڈھوک لمیاں۔گاؤں آڑھا۔گڑھاقریشیاں۔ گاؤں ساہب ۔گاؤں چھپرشریف ۔کریالی ڈھوک چھپر گاوں بھاٹہ ۔موہڑہ نوجو ۔گاوں چھیڑاں ۔گمٹی شریف۔ڈھوک کنیال۔موہڑہ ملا۔کوری دولال۔ڈھوک پہاڑیاں۔ موہڑہ مندو یہ ان سب گاؤں کا مین روڈ ھے جس کی حالت مقامی لوگوں کے لیے باعث تشویش ناک ھے جناب راجہ جاوید اخلاص آپ کو ان علاقوں میی ووٹ مانگنے نھیی آھیی ھیی بغیر آپ کے یہاں آہیی ووٹ آپ کی جھولی میی ڈالیں تھے جس کی سزا یہ 28 گاوں کو اس روڈ کے جھمپ دھکے کی 15 منٹ کا سفر ایک گھنٹے کی صورت میی دیا جا رھا ھے دوسری طرف شوکت بھٹی صاحب آپ کو یہ 28 گاوں کےووٹ اس بنیاد پر دیتے ھیں ایک تو آپ اس علاقے کے اپنے ھیی اور آپ ھمیشہ جیتتے بھی آھیی ھیی تو آپ ان کو کس چیز کی سزا دے رھیی اپنا سمجھ کر ووٹ ڈالنے کی جہاں ووٹ کی تقدسس کی بات کرتے ھیی وھاں ان ووٹر کے بھی تقدس کا خیال رکھا جاۓ جناب اہلیانے علاقے کا مطالبہ ھے جناب راجہ جاوید اخلاص جناب شوکت بھٹی جناب چیرمین چوہدری رمضان ان سب سے روڈ کی تعمیر کی اپیل کی جاتی ھے بصورت اب ووٹ کا تقدس پھراہلیان علاقہ اس صورت میں کرے گا
پاکستان میں اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ طبقہ ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ بن جاتا ہے۔ پاک فوج، عدلیہ اور سول سروس میں بھی اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ نوجوان جاتے ہیں۔ جو ملک کے جاہل ترین، چور ترین بد اخلاق جانور ہوسکتے ہیں، وہ سیاست میں آجاتے ہیں۔
پاکستان میں پارلیمنٹ کا ممبر بننے کیلئے نہ تو داخلہ امتحان ہے، نہ انٹرویو ہے، نہ تعلیم یافتہ اور باکردار ہونے کی شرط ہے، نہ آگے ترقی کیلئے مزید تعلیم و تربیت و امتحان کا کوئی نظام۔ خاندانی نوابزادے، حرام خور، غدار ابن غدار، الو کے پٹھے پہلے ممبر بنتے ہیں، پھر وزیر اور حکمران۔
چونکہ ہر ممبر کو سیاسی رشوت کے طور پر کروڑوں، اربوں روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر بانٹے جاتے ہیں، لہذا ان حرام خوروں کی روزی بھی لگی رہتی ہے اور ملک میں کوئی نظم و ضبط کے ساتھ باقاعدہ ترقیاتی پروگرام چل ہی نہیں پاتا کہ تمام تقسیم اور خرچ ملکی ضرورت کے مطابق نہیں پارٹی سیاست کے مطابق ہوتی ہے۔
تو پورے سیاسی نظام میں تین واضح بڑی خرابیاں ہیں کہ جن کو ہر حال میں نمٹنا ہوگا۔
1 ۔ آئین سے متصادم کفریہ عقائد، صوبائیت، قومیت اور فرقہ واریت پر مبنی سیاسی جماعتیں۔
2 ۔ جاہل اور غدار ممبران اسمبلی۔
3 ۔ ترقیاتی فنڈز کے نام پر حرام خوری اور سیاسی رشوتیں۔
جب فوج ، سول سروسز، عدلیہ اور تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ملازمت کیلئے داخلہ امتحانوں اور بورڈ انٹرویو کی شرط ہے توپارلیمنٹ کیلئے کیوں نہیں؟ کہ جنہوں نے ملک و قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے قانون سازی کرنی ہے۔
آج پاکستان میں یہ پورا سیاسی نظام مکمل طور پر ننگا ہوچکا ہے۔ سیاسی جماعتیں