ہمارے ملک میں مختلف شہروں میں ضلعی انتظامیہ کی صوابدید کے مطابق جمعہ بازار‘ اتوار بازار اور منگل بازار لگائے جاتے ہیں۔ جمعہ مسلمانوں کا مُبارک دِن ہے۔ اتوار عیسائیوں کا اور منگل ہندوﺅں کا۔ سنسکرت / ہندی کے لفظ منگل کے معنی ہیں۔ ”نیک‘ مُبارک‘ خیریت‘ بہبود‘ خُوشی‘ نیکی‘ سرور‘ عافیت‘ رونق‘ چہل پَہل اور خُوشی کا گیت“ ہفتہ کا دِن (یومِ سبت) یہودیوں کا آرام اور عبادت کا دِن ہے۔ عیسائیوں کے لئے (اتوار) بھی۔ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق یہودیوں نے حضرت عیسیٰؑ کو سُولی پر چڑھایا اور اُنہوں نے سُولی پر ہی اپنی جان ”جانِ آفریں“ (اللہ تعالیٰ) کے سپُرد کر دی تھی۔ مسلمانوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو آسمان پر زندہ اُٹھا لِیا تھا۔ پھر ہُوا یہ کہ یہودیوں نے عیسائیوں کو معاف کر دِیا۔ اور اب وہ پوری دُنیا میں ہفتہ اور اتوار کو یوم تعطیل مناتے ہیں۔
پاکستان میں بھی (شاید) یہودیوں اور عیسائیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے ہفتے میں دو دِن۔ ہفتہ اور اتوار کو سرکاری تعطیل ہوتی ہے اور منگل اور بدھ کو گوشت کا ناغہ۔ مشیر امور خارجہ جناب سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ ”سی پیک منصوبے میں بھارت سمیت کوئی بھی ملک شامل ہو سکتا ہے“۔ کیا کوئی بھی مُلک ”اسرائیل“ بھی ہو سکتا ہے؟۔ جب ہمارے مُلک منگل بازار بھی لگتے ہیں۔ آج منگل ہے تو کیوں نہ مَیں آج کے دِن خبروں کا منگل بازار سجّاﺅں؟۔
”بی بی سی کی کُھلی کتاب؟“
گذشتہ دِنوں پانامہ لِیکس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے لارجر میں ”جنابِ وزیراعظم کی زندگی کی کُھلی کتاب“ اور اُس کتاب کے کچھ غائب صفحات کا چرچا ہُوا۔ دو دِن قبل برطانوی خبررساں ادارے بی بی سی نے برطانیہ میں کاروباری کمپنیوں کا ریکارڈ رکھنے والے سرکاری ادارے کی دستاویزت کے حوالے سے اپنی رپورٹ (کُھلی کتاب) نشر کر دی ہے۔ کتاب کُھلی ہو تو اُسے پڑھنے کے لئے اُس کے صفحات اُلٹنے / پلٹنے میں آسانی ہوتی ہے اور اُس کے مندرجات کا مطلب سمجھنے کے لئے کسی (کلِید) یا خلاصے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پنجابی کے صوفی شاعر بابا بُلّھے شاہ نے تو عِشق کے بارے میں کہا تھا کہ
”چُپ کر دڑ وٹّ جا‘ نہ عِشق دا کھول خلاصہ!“
لیکن کیا کِیا جائے کہ پانامہ لِیکس کا خلاصہ اِتنا زیادہ کُھل چکا ہے کہ اُسے باندھنے میں مُشکلیں پیش آ رہی ہیں۔ بی بی سی کی کُھلی کتاب میں کہا گیا ہے کہ ”لندن میں شریف خاندان کے زیر استعمال فلیٹس 90ءکی دہائی میں خریدے گئے تھے اور وزیراعظم کے دونوں صاحبزادے اِن چاروں فلیٹس کی ملکیت کا دعویٰ کر چُکے ہیں۔ حسین نواز‘ حسن نواز اور مریم نواز صاحبہ کے وُکلاءاِس پر کیا مو¿قف اختیار کریں گے؟۔ دیکھتے ہیں! اُستاد شاعر شعور نے تو اپنے عِشق کی کہانی بیان کرتے ہُوئے ہاتھ جوڑتے ہُوئے کہا تھا کہ
”سُن مجھ سے شعور‘ جگر افکار کا قِصّہ
اب اور کہانی‘ کوئی آتی نہیں مجھ کو!“
وزیراعظم کا دورہ¿ برطانیہ
خبر ہے کہ ”وزیراعظم میاں نواز شریف‘ خاتونِ اوّل بیگم کلثوم نواز اور اپنے دونوں بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز کو ساتھ لے کر کل (16 جنوری کو) کسی وقت سوئٹزر لینڈ پہنچ چکے ہوں گے اور ڈیورس میں وہاں عالمی اقتصادی فورم میں شرکت کریں گے اور اُس کے بعد 20 جنوری کو 10 روزہ دورے پر برطانیہ جائیں گے۔ وزیراعظم صاحب کا دورہ¿ طویل بھی ہو سکتا ہے۔ کتنا طویل؟ خبر میں نہیں بتایا گیا البتہ یہ بتایا گیا ہے کہ لندن میں اپنے قیام کے دوران وزیراعظم اپنا طبّی معائنہ بھی کرائیں گے۔ اُن کا دورہ نجی نوعیت کا ہے لیکن وہ برطانیہ کے بعض اعلیٰ حکام اور برطانیہ میں مسلم لیگ کے بعد عہدیداروں سے ملاقاتیں بھی کریں گے؟“۔
خبر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ملک سے وزیراعظم کی غیر موجودگی میں غیر سرکاری قائمقام وزیراعظم کون صاحب یا صاحبہ ہونگی؟۔ وزیرِ خزانہ محمد اسحاق ڈار‘ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان یا جنابِ وزیراعظم کی بیٹی مریم نواز صاحبہ؟ اور جنابِ وزیراعظم کے بیرونی دورہ شروع کرنے سے پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنے سے عوام پر مہنگائی کا جو بم گرایا گیا ہے‘ اُس کے ”ثمرات“ کون سمیٹے گا؟۔ پاکستان ٹیلی وژن پر تو وزیر اعظم صاحب کے”ویژن” بصارت / بصیرت ) کی بہت تعریف کی جاتی ہے۔ “پی ٹی وی” کو عملی طور پر بھی اپنے دعوے کی صداقت کا ثبوت دینا ہوگا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اِس بار وزیراعظم صاحب برطانیہ سے مکمل طور پر صحت یاب ہو کر وطن واپس تشریف آئیں۔
غُربت کے خاتمے پر اے پی سی!
وزیراعظم میاںنواز شریف کے ”خصوصی اتحادی“ مولانا فضل اُلرحمن کی جمعیت عُلماءاسلام کی مجلسِ شُوریٰ نے فوجی عدالتوں کی مُدّت میں فیصلے کی توسیع کے حکومتی فیصلے کو مسترد کر دِیا ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے مولانا فضل اُلرحمن نے کہا کہ ”ہماری جمعیت پہلے کی طرح فوجی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کرے گی اور اگر حکومت اِس معاملے میں مشاورت کرنا چاہتی ہے تو وہ ”آل پارٹیز کانفرنس“ ( اے پی سی) طلب کرے“۔
مولانا صاحب کی یہ دلیل تو معقول ہے۔ اِس لئے دو سال پہلے 6 جنوری 2015ءکو پارلیمنٹ میں فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے آئین میں 21 ویں ترمیم بھی۔ اے پی سی کے متفقہ فیصلے کے بعد کی گئی تھی لیکن دو سال بعد (7 جنوری 2017ء) کو وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے اعلان کِیا تھا کہ ”کل رات 6 جنوری کو فوجی عدالتوں کی مُدّت ختم ہو گئی ہے۔ ”آج سے فوجی عدالتیں دہشت گردوں کے خلاف مقدمات نہیں سُن سکیں گی۔ اب دہشت گردوں کے خلاف مقدمات انسدادِ دہشت گردی کی عدالتیں سُنیں گی“۔
پھر یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ”پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادتیں ایک “صفحہ” پر ہیں“ فوجی عدالتوں کے قیام کی توسیع میں پارلیمنٹ میں پارلیمانی پارٹیوں کی مشاورت سے کرنے کا فیصلہ کِیا۔ اِس بار اے پی سی طلب کرنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی؟۔ وزیراعظم‘ ان کی کابینہ اور “کابینہ کچن” کے ارکان ہی جانتے ہوں گے۔ بعض مخالفین کا الزام ہے کہ مولانا فضل اُلرحمن ”وصولی سیاست“ کی سیاست کرتے ہیں لیکن فوجی عدالتوں کی مُدّت میں توسیع کے لئے اے پی سی کا اجلاس طلب کرنے پر مولانا صاحب کا مطالبہ ”اصولی سیاست“ کی غمّازی کرتا ہے۔
مولانا فضل اُلرحمن ایک خاص مذہبی ”نقطہ نظر“ کے علمبردار ہیں لیکن انہیں یاد ہوگا کہ ”ہجرت مدینہ کے بعد پیغمبرِ اِنقلاب نے انصارِ مدینہ اور مہاجرین مکّہ میں ”مواخات“ (بھائی چارے) کا مضبوط رِشتہ قائم کر دِیا تھا“۔ جِس کے تحت دولت مند انصارِ مدینہ نے اپنی آدھی دولت غریب مہاجرین مکّہ میں بانٹ دی تھی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مولانا فضل اُلرحمن اور پارلیمنٹ میں موجود دوسرے مذہبی قائدین پاکستان میں غربت کے خاتمے کے لئے بھی آل پارٹیز کانگریس بلانے کے لئے مسلم لیگ ن کی حکومت پر دباﺅ ڈالیں اور اُس وقت تک ڈالتے رہیں جب تک پاکستان کا خُوشحال طبقہ اپنی آدھی دولت غریبوں میں نہ بانٹ دے!۔