لاہور (ویب ڈیسک) اسے کہتے ہیں ایک پنتھ دو کاج یا ایک تیر سے دو نشانے۔ چیئرمین ’’نیب‘‘ نے انسداد ِ بدعنوانی کے عالمی دن کےموقع پر ایوان ِصدر میں منعقد ہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا عمدہ بات کی ہے کہ’’کرپشن پر سزائے موت ہو تو آبادی کم ہوجائے گی‘‘ نامور کالم نگار حسن نثار اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بندہ پوچھے بندہ پرور! اور کیاچاہئے کہ کرپشن میں اضافہ کے ساتھ ساتھ آبادی میں اضافہ بھی ایک انتہائی سنگین مسئلہ ہے اوراگر ایک ہی جھٹکے میں یہ دونوں اہداف حاصل ہوسکتے ہیں تو بسم اللہ کریں کیونکہ یہ تعداد نہیں استعداد کا زمانہ ہے، کوانٹٹی نہیں کوالٹی کا دور ہے۔ آبادی بھلے کم ہو لیکن جاندار اور شاندار ہو تو باعث فخر و افتخار ورنہ ذلت کے انبار کے سوا کچھ نہیں۔ دکاندار پھلوں کے ٹوکرے سے گلے سڑے پھل فورا ً اس لئے نکال باہر کرتا ہے کیونکہ وہ صحت مند پھلوں کوبھی خراب کر دیتے ہیں۔ ایک راشی، ایک حرام خور، ایک کرپٹ نجانے کتنے بھلے لوگوںکو پٹڑی سے اتار دیتا ہے کیونکہ بدبو خوشبو سے کہیںزیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور اس کے پھیلائو کی رفتار ہی نہیں رینج بھی خوشبو سے کہیں زیاہ ہوتی ہے۔ کمرے میں رکھا ہوا ٹیوب روزز کا بہت بڑا گلدستہ وہ کچھ نہیں کرسکتا جوایک مرا ہوا متعفن چوہا کرسکتا ہے اور یوں بھی یہ کس نے نہیں سناکہ؎’’جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں‘‘ چیئرمین نیب نے یہ بھی کہا کہ ’’جن کے پاس پہلے موٹرسائیکل تھی اب دبئی میں ٹاورز ہیں۔ نیب نے پوچھ لیا توکون سا جرم کیا؟‘‘ جاوید اقبال صاحب! جرم یہ ہے کہ صرف پوچھنے پر اکتفاکیا جارہا ہے۔ جیسے ایک مچھلی پورے جل کو گندا کردیتی ہے ایسے ہی موٹرسائیکل پر بیٹھ کر ٹاورز تک پہنچنے والا بہت سوںکو برباد کردیتا ہے۔ کوئی مجھے دیانتداری سے بتائے کہ اک عام نارمل نوجوان کا رول ماڈل کون ہوگا؟ موٹرسائیکل پر شروع ہو کر موٹرسائیکل پر ہی مرجانے والا یاموٹرسائیکل سے شروع ہو کر دبئی میں ٹاورز فتح کرنے والا؟ اس طرح تو زنگ لوہے کو اور کینسر بندے کو نہیں کھاتا جس طرح کرپشن کسی معاشرہ کو نگل جاتی ہے۔ خربوزوں کو دیکھ کرخربوزے رنگ پکڑتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے خوشبودار لذیذ خربوزوں کا پورا کھیت گل سڑ جاتا ہے اور یہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا۔ ہم یہ جانے بغیر آبادی بڑھاتے رہے کہ دراصل بربادی بڑھ رہی ہے۔ ہمیں آج تک سمجھ نہیںآ رہی کہ ایک منشا بم کئی ایٹم بموں پر بھاری ہوتاہے اوریہاں تو قدم قدم پر منشا بموں کی بھرمار ہے۔آج سے پچاس سال پہلے کا پاکستان پرکٹے فرشتوں پرمشتمل نہیں تھا۔ رشوت اور ڈالی جیسے لفظ سنائی دیتے تھے لیکن گالی کے انداز میں۔ میں شاید پہلے بھی کبھی یہ واقعہ لکھ چکا ہوں۔ چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے اور عام طور پر تین بچے ایک ڈیسک شیئر کرتے۔ میرے ساتھ جو لڑکا بیٹھتا وہ کسی پولیس افسر کا بیٹا تھا۔اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے لڑکے نے جانے کیسے ایک دن کہہ دیا کہ اس کے ابو رشوت لیتے ہیں۔ اس لڑکے نے آئو دیکھا نہ تائو، جیومیٹری بوکس میں پڑی پرکار پوری قوت سے اس کی ران میں اتار دی۔ یہ تھا چھٹی جماعت کے بچے کا رشوت کے طعنے پر فوری ری ایکشن۔ پیچھے بیٹھاارشد اگر اس لڑکے کو دبوچ نہ لیتا تو وہ دوسرے وار کے لئے بھی ہاتھ اٹھا چکا تھا۔ یہ وہی ارشد تھا جو ارشد چوہدری کہلایا اور پاکستان کی ہاکی ٹیم میں بڑا نام کمایا۔ ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اختر رسول کا یہ کزن میرا بچپن کا دوست تھا جو چند سال پہلے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے مجھ سے بچھڑ گیا۔ میں اور ارشد چوہدری زندگی بھر یہ واقعہ یاد کرکے سوچتے رہے کہ اس کے بعد اس ملک کو کس کی نظر کھا گئی کہ رشوت ذلت کی جگہ عزت میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔اسی تقریب میں صدر مملکت نے بھی اک عجیب سی بات کی کہ ’’کرپشن کم کرسکتے ہیں لیکن اس پر قابو پانا مشکل ہے‘‘ تو شاید صدر صاحب کو اندازہ نہیں کہ اسی کالم میں ایک سے زیادہ بار عرض کرچکا ہوںکہ کرپشن کا خاتمہ کسی ابنارمل آدمی کا ٹارگٹ ہی ہوسکتاہے کیونکہ جہاں انسان ہوںگے وہاں گناہ اور جرم ضرور ہوگا جن کے مکمل خاتمہ کاخواب کوئی دیوانہ ہی دیکھ سکتا ہے۔اصل ہدف صرف ہوتا ہی یہ ہے کہ ان دونوں یعنی گناہ اور جرم کو نچلی ترین سطح تک مقید و محدود رکھا جائے۔ انہیں یکسر ختم کرنا نہیں بلکہ کینڈے اور کنٹرول میں رکھنا ہی ٹارگٹ ہوتا ہے۔ اچھا معاشرہ وہ ہے جہاں مجرم ڈھونڈنا پڑیں، برا معاشرہ وہ ہے جہاں معصوم اقلیت میں رہ جائیں۔ موٹرسائیکل سے ٹاورز تک پہنچنا بھی جرم نہیں اگر اس کا معقول جواب اور جواز ہو اور آپ ہنری فورڈ یا بل گیٹس ہوں، ’’کیمل ٹو کیڈلک‘‘ بھی سر آنکھوں پر اگر تیل نکل آئے لیکن ہمارا پیارا اسلامی جمہوریہ پاکستان تو الامان الحفیظ!منشا بم موجود ہوں تو ایٹم بم کی افادیت بھی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ معاشرہ اندر سے ہی اس بری طرح کھوکھلا ہو جاتا ہے کہ کسی دشمن کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ کرپٹ تو دس فیصد بھی ہوںتو باقی نوے فیصد کو لے بیٹھتے ہیںاور یہی کلچر عروج پر ہے۔ کمال یہ ہے کہ جن کرپٹوں نے کراچی پر اک اور کراچی چڑھا دیا، آج وہی لوگ تجاوزات آپریشن کے متاثرین کے لئے جھنڈے اٹھائے پھرتے ہیں کیونکہ کرپشن کی انتہا بھی یہی ہے کہ آخر کار ظالم اور مظلوم، جائز اور ناجائز، غلط اورصحیح کے درمیان تمیز کرنا ممکن نہیں رہتا۔