تحریر : عمران عاکف خان
اللہ تعالیٰ کٹھ پتلی لیڈر بھی کسی کو نہ بنائے….ورنہ اس کا حال یوپی اے حکومت کے لیڈر اور سابق وزیراعظم ہند، منموہن سنگھ جیسا ہوجائے گا ۔کیا آدمی ہیں جناب والا ….خاموش …. خاموش ….اور بس خاموش …کیسا بھی عالم ہو ،کیسے بھی حالات ہوں اور کیسی بھی اٹھک پٹخ ہو رہی ہو ،مجال ہے جو کچھ بول بھی جائیں ….آ پ پر الزامات لگائے جاتے ہیں ….آپ کو برا بھلا کہا جاتا ہے ،آپ کو ایجنٹ تک کہہ دیا جاتا ہے مگر آپ کی بد ستور خاموشی، دشمنوں اور طعنہ زنوں کو دیواروں سے سرٹکرانے پر مجبور کر دیتی ہے۔آپ کی مثالی خاموشی آج کل مذاق کا موضوع بھی بنی ہوئی ہے ،جہاں کہیں دیکھا کوئی خاموش …خاموش ہے تو اسے ”منموہن سنگھ ”کہہ کر چڑھایا جاتا ہے ۔ایک دفعہ کا ذکر ہے دہلی یونیورسٹی کے طلبامیںکسی موضوعپر گر ما گرما بحث ہو رہی تھی۔ایک طالب علم خاموش خاموش ان کی باتیں سن رہا تھا ۔اچانک طلبا کے لیڈر نے اس طالب علم کی طرف اشارہ کر تے ہو ئے کہا:”اب منموہن سنگھ کی سنیے!”
یہ ہیں سردار منموہن سنگھ، سابق وزیر اعظم ہند ،جنھوں نے” سنگھ از کنگ ”کا نعرہ دیاتھااور جس وقت میں یہ تحریر سپر قرطاس کر رہا ہوں ،آں جناب سپریم کورٹ آف انڈیا کی جانب سے وارنٹ گر فتاری کا ” سمن” یافتہ بنے ہوئے ہیں طرفہ تماشا تو دیکھیے پھر بھی خاموش ہیں ۔وہ تو بھلا ہومسز سونیا گاندھی کا جنھوں نے ”پوری کانگریس کا ہاتھ من موہن سنگھ کے ساتھ ”کر دیا اور١٢مارچ ٢٠١٥ء بروز جمعرات کو وائرل بخار میں مبتلا ہونے کے باوجود اپنی رہائش گاہ ١٠جن پتھ سے ٣موتی لال نہرو مارگ تک ان کی حمایت میں احتجاجی ریلی نکالی ۔یہ ریلی منموہن سنگھ کے گھر پہنچی اور ان سے اظہار یکجہتی کی۔ آپ بھی کچھ دیر اس ریلی میں بہ نفس نفیس موجود رہے اور مسلسل خاموش …..ا ن کی جگہ اگر کسی دوسری پارٹی کا نیتا ہوتا تو چیخ چیخ کر اپنے اوپر لگنے والے الزامات پر آسمان سر پر اٹھا لیتا،میڈیا والوں کو آستین اتار اتار کر دکھاتا ۔منہ سے جھاگ پھینکتا۔سر بجاتا ، پھوں پھاں کر تا اور عدالت کی تو ہین تو بہت چھوٹی سی بات ہے، عصمت دری تک کر ڈالتا …..مگر منموہن سنگھ نے ایسا نہیں کیا۔وہ مسلسل خاموش رہے۔ اب تو ان کی خاموشی سوالیہ نشان بھی بن رہی ہے۔لوگ پوچھ رہے ہیں منموہن سنگھ خاموش کیوں ہیں؟ مگر کوئی جواب نہیں ملتا ….اس سے ایک بات تو صاف ہے کہ ”ان کی داڑھی میں تنکا ضرور ” ہے ۔اگر وہ بولے، تنکا گر ے گا اور کتنوں کاراز فاش ہوگا ۔ بس یہی ڈر ہے جو انھیں مسلسل١٠برس سے خاموش کیے ہوئے ہے۔ورنہ کیا مجال ہے جو معصوم اور بے گناہ ایسے سنگین الزامات کا سامنا کر ے اور ”چپ رہے”…..
قارئین کرام !اگر تاریخ کی نظر سے اس تمام واقعے کا تجزیہ کیا جائے تو آپ کے واضح رہے کہ ٢٠٠٤سے لے کر ٢٠٠٩ تک یعنی یوپی اے اول کے دور میں کوئلہ بلاک کانوں کا من مانے طریقے سے کارپوریٹ سیکٹر کو الاٹمنٹ کر نا،اسی طرح سرکار کے ذریعے صنعت کاروں کا بے جا اور غیر مناسب تحفظ کر نا،نیز معمولی قیمتوں پر بغیر نیلامی کے کانوں سے کوئلہ نکالنے کا ٹھیکہ دینا جیسے”عظیم” کارنامے…منموہن سنگھ کی گلے کی ہڈی بن گئے ۔اس دوران میں جتنا کوئلہ نکلا اور صرف ہوا اس سے ملک کو ماہرین اقتصادیات کے مطابق مجموعی طورپرملک کا٨٦.١لاکھ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے ….جس سے لاکھوں خاندان پلتے اور کروڑوں کی غربت دور ہوتی …..مگر کون سوچتا ہے غریبوں کے متعلق اور کس کو خیال ہوتا ہے کہ بھوکے ننگے لوگ کیسے رہتے ہیں ،یہاں تو غریب ہونا ہی جرم عظیم ہے۔
خیر دیر آید درست آید ….ملک کے تمام غریبوں کو امید ہے سپریم کورٹ کا حکم نامہ اور اس کے مابعد متوقع فیصلہ، غریبوں کی آہوں اور کراہوں کا نتیجہ بنے گا ….کانگریس ،منموہن سنگھ کے حامی اور چوروں کے رکھوالے کتنا ہی شور مچاتے رہیں ،کچھ نہیں ہونے والا ۔اب دن پھررہے ہیںاور اللہ تعالیٰ کی لاٹھی چلنے والی ہے جو بے آواز ہوتی ہے ۔میں یہ نہیں کہتا کہ بی جے پی گھپلہ باز نہیں ہے یا نریندر مودی ایمان دارآدمی ہے ….میں تو کہتا ہوں کہ یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں …مگر غریبوں کا خدا ہے جس کے آسر اور سہارے وہ زندگی کے رات دن بسر کر تے ہیں ….میں سیاست دانوں ،کانگریس و منموہن سنگھ کے حامیو ں…بی جے پی کے دلالوں اور سیاست کے مکھوٹے بازوں سے پوچھنا چاہتا ہوں…کیا تمھیں خدا کے قہر سے ڈر نہیں لگتا ؟کیا تمھیں کبھی احساس نہیں ہوتا کہ جن کے ووٹ لے کر تم ایوان اقتدار تک آئے ہو ان کوکسی طرح کی دکھ تکلیف نہ ہو ؟کیا تمھیں خیال نہیں آتا کہ اس ملک کے غریب کس حالت میں رہتے ہیں ؟
کیوں تمھیں دھیان نہیں رہتا کہ قومی وسائل میں صرف نیتائوں،کارپوریٹروں ،صنعت کاروں اور بڑے لوگوںکا ہی حصہ نہیں ہے بلکہ غریب ،نادار ، خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں ؟ کیا تم نہیں سمجھتے کہ جو کچھ آج تمھارے پاس ہے …وہ سب غریبوں کی مر ہون منت ہے اور ان کے ووٹوں ،ان کی قیمتی رایو اور ان کے بھروسوں کے بل بوتے پر ہے؟شاید نہیں !تمھیں ان باتوں کا خیال ہی نہیں گزرتا اور نہ تمھیں اس کی فکر بھی ہے کیوں کہ تم سیاہ و سفید کے مالک بنے بیٹھے ہو اور تمھاری نظر زمین کے بجائے آسمانوں میں ہے۔مگر ہوشیار !بہت جلد تمھاری نگاہیں زمین میں گڑنے والی ہیں …شرم سے ،غیرت سے ،محرومی سے اور نہ جانے کیسے کیسے ؟مگر گڑیں گی
ضرور !آج منموہن سنگھ کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یا ہونے والا ہے، وہ ان کی کرتوتوں کا ہی نتیجہ ہے اور ان کی ”مجرمانہ خاموشی”کا پنچ نامہ…میں کہتا ہوں اگر وہ مجرم نہیں ہیں،تو بولتے کیوں نہیں ؟میں کیا جانوں کہ ان کے دل میں کیا ہے ؟میں کیسے سمجھوں کہ منموہن سنگھ سچے انسان ہیں ؟مجھے کیسے پتا چلے کہ منموہن جی بے گناہ ہیں؟ بھائی! کچھ بولیں گے تب ہی تو عیب و ہنرش اجاگر ہوں گے۔ آخرآئین ہند نے مجرم کو بھی اظہار خیال ،رحم کی اپیل اور راحت کی عرضی دینے کاپورا پورا اختیار دیا ہے ،وہ تو معصوم و بے گناہ ہیں آپ کا تو یہ پیدائشی ہی حق ہے؟کاش میری یہ باتیں ان تک پہنچیں !ضرور پہنچیں گی مگر پھر بھی وہ ”خاموش بت ”بنے ہی رہیں گے …چوراگر اکیلا ہوتا ہے تو شور مچاتا ہے اور اگر پوری جماعت اس کے ساتھ ہوتو ہونٹ سی لیتا ہے۔دنیا جانتی ہے کہ اگر منموہن سنگھ نے منہ کھولا تو کیسے کیسے آسمان زمین پر گر یں گے کہا نہیں جاسکتا ۔شاید اسی لیے منموہن خاموش ہیں اور بدستور مجرم بنے ہوئے ہیں ۔ ٨اپریل اب دور نہیں ہے جب سابق وزیر ائے اعظم راجیو گاندھی اور نرسمہارائو کے بعد منموہن سنگھ تیسرے وزیراعظم ہند ہوں گے جوبد عنوانی اور کر و ڑوں کے گھپلے کے الزام میں عدالت عالیہ میں ایک مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے ….ہندوستان کواس دن کا شدت سے انتظار ہے۔
تحریر : عمران عاکف خان
imranakifkhan@gmail.com