تحریر : منظور فریدی
اللہ جل شانہ کی بارہا حمد وثناء اور تاجدار کائنات جناب محمد رسول اللہ ۖ پر لاکھوں بار درود وسلام کہ جس نے اس امت سے اتنا پیار کیااتنا پیار کیا اتنا مہربان نبی کہ آدم سے عیسیٰ تک نبیوں میں بھی آپۖ کی نظیر نہیں ملتی تمام انبیاء کرام نے جب اپنے دین کی تبلیغ کا آغاز کیا تو انہوں نے مختلف معجزات دکھا کر لوگوں کو اپنے نبی ہونے پہ قائل کیا مگر آقا کریم کو جب یہ حکم ملا کہ اپنے خاندان کو اسلام کی دعوت دو تو آپ ۖ نے کوئی معجزہ دکھانے کے بجائے اپنی ذات کو پیش کیا۔
بڑا ہی مشہور واقعہ ہے کہ آپۖصفا کی پہاڑی پر جلوہ افروز ہوے اور اہل قریش کو بلاکر آپ ۖنے فرمایا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑی کے عقب میں ایک لشکر جرار کھڑا ہے جو ابھی تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم مان لو گے تو سب نے بیک زبان ہاں کردی جب آپۖ نے ماننے کی وجہ دریافت فرمائی تو سب نے کہا کہ آپۖ نے آج تک جھوٹ نہیں بولا آپ صادق و امین ہیں کسی نے معجزہ طلب کیا نہ آپۖنے دکھانے کی ضرورت محسوس کی یہ آپ ۖ کا حسن کردار ہے جسے غیر مسلم بھی ماننے پر مجبور تھے اور ایسا کیوں نہ ہوتا جناب اولاد ہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وہ فرزند ہیں جنہوں نے ایک ہی واقعہ سے باپ کے حق کو اتنا اجاگر کر دیا کہ آج تک تاریخ پڑھ لیں کوئی بیٹا اپنے باپ کی اتنی تابعداری کرتا نہ ملیگا۔
جناب ابراہیم علیہ السلام جن کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے آپ جد الانبیاء ہیں جناب عیسیٰ کا شجرہ نسب بھی آپ کے بیٹے حضرت اسحق سے جاملتا ہے جو کہ آپ کی زوجہ حضرت سارہ سے پیدا ہوے اور نبی آخرالزمان جناب محمد مصطفی کریم ۖ بھی آپ کے بیٹے جناب اسماعیل کی اولاد میں پیدا ہوئے درمیان میں جتنے بھی نبی مبعوث ہوئے وہ سب آپ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہی ہیں آپ کی سیرت کو بیان کرنا شروع کردیں تو کئی صفحات درکار ہونگے یہاں اصل مقصد جناب اسماعیل علیہ السلام کی فرمانبرداری کو بیان کرنا ہے جس کو سیاق وسباق سے نظر قارئین کیا ہے جناب ابراہیم علیہالسلام بڑے مالدار تھے حتیٰ کہ آپ کے مویشیوں کے گلے ریوڑ کے ریوڑ تھے اور ان ریوڑوں کی نگرانی کے لیے جو کتے رکھے ہوئے تھے انکے پٹے سونے سے بنے ہوتے تھے کسی نے آپ سے سوال کیا کہ کتوں کے گلے میں سونا ؟ تو جناب نے جو فرمایا وہ آج کے مالداروں اور صرف دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لینے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔
آپ نے فرمایا کہ مال دنیا کتوں کے لیے ہی ہے اللہ کریم آپ کا امتحان لینا شروع کیا دو فرشتے آئے اور انہوں نے آپکے سامنے اللہ کی حمد و ثناء بیان کرنی شروع کی اور تھوڑی دیر بیان کرنے کے بعد خاموش ہو ے تو آپ نے بڑی لجاجت سے عرض کیا کہ پھر سنائو تو فرشتوں نے جو انسانی شکل میں تھے مطالبہ کیا کہ اگر وہی حمد سننا چاہتے ہو تو دوبکریاں ہمیں دو آپ نے دے دیں اسی طرح حمد وثنا ء کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جب آپکا سارا مال ان فرشتوں نے لے لیا تو اب وہ فرشتے کہنے لگے کہ اب مال تو سارا ہمارا ہو گیا۔
اب ہمیں اور کیا دو گے تو آپ نے فرمایا کہ تم دونوں مجھے کسی بڑے گھر کے لگتے ہو صاف ستھرے لوگ ہو تمہیں مال کو چرانے کے لیے بھی تو بندہ درکار ہوگا تو مجھے نوکر رکھ لو میں تمھارا مال چراتا رہونگا اور مزدوری میں تم مجھے میرے اس پاک رب کی حمد وثنا سنا دیا کرنا اسوقت فرشتوں نے کہا کہ اے ابراہیم ہم تیرے رب کی طرف سے تیرا امتحان لینے کے لیے آئے تھے ہمیں مال سے کوئی سروکار نہیں سارا مال بھی تیرا ہی ہے اور ہم بھی تیرے غلام ہیں تو آپ نے فرمایا جو اسکی راہ میں اسکے نام پر دے چکا اسے واپس لینا زیب نہیں اللہ نے جب حضرت اسماعیل سے آپ کا دلی لگائو دیکھا تو آپ کو الہامی وحی کے ذریعہ حکم دیا کہ اپنی پیاری شئے کو میرے نام پہ قربان کردو آپ نے کئی اونٹ ذبح کیے مگر وہ مطالبہ بڑھتا گیا بالآخر اللہ نے واضح حکم دیدیا کہ اپنے بیٹے اسماعیل کو میرے نام پہ ذبح کردو وہ بیٹا جسے شیر خوارگی کی عمر میں اپنے آپ سے جدا کرنے کا حکم ہوا۔
اب وہ بلوغت کی طرف قدم بڑھا رہا ہو اور حکم ربی ہوجائے کہ اسے ذبح کردو تو یہ جناب ابراہیم علیہ السلام ہی ہیں جو رتی برابر گھبرائے نہیں سیدھا بیٹے کے پاس آئے اسے سارا ماجرا بیان کیا کہ مجھے اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ میں تجھے قربان کردوں تو کیا کہا بیٹے نے قربان جائوں جناب اسماعیل تیری اطاعت و فرمانبرداری کے آپ نے عرض کی کہ ،،،اے والد بزرگوار آپ کو اللہ نے جو حکم دیا ہے آپ وہ کر گزریں میرے پائوں میں لغزش نہ آئیگی اسی بات کو جناب ڈاکٹر علامہ محمد اقبال صاحب نے اپنے ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے ،،یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے جس نے اسمعٰیل کو آداب فرزندی
قربانی کا سارا واقعہ قارئین علماء کرام سے سنتے چلے آرہے ہیں میرا سوال آج کی نوجوان نسل سے صرف اتنا ہے کہ وہ مکتب کونسا تھا جہاں جناب اسمعٰیل علیہ السلام نے تعلیم حاصل کی؟ صرف زوج نبی جناب اماں حاجرہ کی گود ۔ا ور ہماری بیٹیوں میں سے کون سی ایسی بیٹی ہے جو آج ایسی تعلیم دے اولاد کو ؟ کونسی یونیورسٹی ایسی ہے پاکستان کی جس میں یہ تعلیم دی جارہی ہو کہ اولاد بھی باپ کی میراث میں شامل ہے اور وہ اسے ذبح بھی کرے تو وہ اتنی فرمان بردار ہو کہ انکار نہ کرسکے ہماری آج کی نوجوان نسل اس قدر گمراہ ہو چکی کہ سنت انبیا داڑھی مبارکہ کو مذاق بنا لیا قوم کی بیٹیوں نے اپنی الگ دنیا بسا لی وہی والدین جنہوں نے پال پوس کر بڑا کیا اور معاشرہ کی ضرورت سمجھتے ہوئے عصری علوم دلوادیے وہی بیوقوف ٹھہرے معاشرہ میں لو میرج کے کتنے ایسے کیس ہیں جن میں بیٹی نے یہ کہا کہ میری اپنی زندگی ہے اور میں اس میں کسی کو مداخلت کا حق نہیں دیتی غیرت کے نام پر کتنے قتل ہوئے آج تہذیب کے نام پر دین محمدی کے درپے ہونیوالا طبقہ غیرت کے نام پہ قتل پر قانون سازیاں کرنے کی قراردادیں جمع کرواتا پھرتا ہے اور خدا کی قسم غیرت کے معنی سے ہی ناواقف ہے یہ معاشرتی جھوٹی انا کے جرم کو غیرت کے قتل کا نام دیا جارہا ہے اصل غیرت تو دینی غیرت ہے جو ہم سب فراموش کر بیٹھے منبر رسولۖ پر بیٹھے مفتیان کرام کے اپنے گھروں میں یہود و نصاریٰ کی تہذیب گھسی ہو تو ان کے واعظوں میں کیا اثر ہو گا۔
ایسے سکول کھولو جہاں تہذیب محمدی سکھائی جائے ہمارے مفتیوں نے حمد ونعت کو لائوڈ سپیکر میں پڑھنے کی پابندی کو تو قبول کرلیا مگر یونیورسٹیوں میں ڈانس پارٹی کے انعقاد پر سکولوں میں ناچ گانے ،تھیٹر میں بے ہودہ فحش مذاق کرنے والے بھانڈوں پر پابندی نہ لگوا سکے ۔غیر ملکی میڈیا وار غیر مسلم فلم میکرز کی بنائی ہوئی فلمیں جن میں دین اور دین دار طبقہ کا مذاق اڑایا جارہا ہو وہ ہمارے علماء کرام کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے ایسے سکول کھولو ایسی یونیورسٹیاں بنائو جہاں تربیت دینے والوں کو اسلام کی روح تک رسائی ہو تو ان سکولوں ان یونیورسٹیوں سے وہ فوج نکلے گی جو والدین کا سر جھکانے کے بجائے انک عزت کو دوام بخشے گی۔
میں برملا کہہ جاتا ہوں کہ آج کوئی باپ بالخصوص ہمارے ممی ڈیڈی ماحول کے پروردہ بچے کو ایسا کہہ کر تو دیکھے کہ بیٹا میں نے تجھے اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہے Oh dead you are stuppid کا جواب نہ ملے تو میں جھوٹا خدا کے لیے اس خدا کی عطا کردہ ریاست کو وہی ریاست بنا دو اپنے اپنے گھروں میں وہی ماحول پیدا کرو جس سے اللہ بھی راضی ہو اللہ کا رسول بھی اور پھر دنیا کی کوئی بھی طاقت تمہیں زیر نہیں کر سکتی کیونکہ یہ کسی سپر پاور امریکہ یا جاپان کا وعدہ نہیں بلکہ اللہ کریم کا وعدہ ہے جو مالک الملک ہے قادر مطلق ہے اور خالق ہے پوری کائنات کا۔
تحریر : منظور فریدی