ہارٹ ٹرانسپلانٹ سے ہی ان کا علاج ممکن تھا مگر پاکستان میں طبی سہولیات پہلے ہی دگرگوں ہیں تو یہ ممکن نہ ہو سکا۔ یوں تو شاہد آفریدی نے بھی علاج کے سلسلے میں مدد کا عندیہ دیا تھا اور منصور احمد سے ملاقات بھی کی تھی، پھر مقامی سطح پر کوشش کی گئی کہ یہاں علاج کو ممکن بنایا جاسکے مگر منصور احمد جانبر نہ ہوسکے۔ سابق کپتان منصور احمد شدید علالت کے باعث جناح اسپتال کے آئی سی یو میں داخل تھے
ستم ظریفی یہ کہ ہاکی فیڈریشن اور حکومت پاکستان کی جانب سے بھی کوئی مالی معاونت نہیں کی گئی۔ ہوسکتا ہے کہ دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ایک چیک (جس کے کیش ہونے کے امکانات بہت کم ہیں) یا ایک پلاٹ (جس کی زمین کا وجود بھی نہیں ہوگا) پس ماندگان کو مل جائے۔
ایک منٹ کےلیے تصور کیجیے کہ منصور احمد عالمی مقابلے میں وکٹری اسٹینڈ پر ہیں اور پاکستان کا قومی ترانہ بج رہا ہے۔ اس سے خوبصورت بھلا کوئی اور منظر ہوسکتا ہے؟
نئی نسل کے بیشتر نوجوان منصور احمد کے نام سے بھی آشنا نہیں ہوں گے۔ انہیں یہ بھی خبر نہیں کہ ہاکی اور اسکواش میں پاکستان کا ماضی کتنا شاندار تھا۔ مگر اب یہاں حال کو دیکھا جاتا ہے اور مستقبل پر نظر رکھی جاتی ہے۔
جس طرح آکاس بیل جس درخت پر چڑھ جائے اسے چوس کر سکھا دیتی ہے، اسی طرح کرکٹ بھی باقی تمام کھیلوں کو کھا گیا۔ پیسہ، میڈیا میں تشہیر اور گلیمر نے کرکٹ کو سب پر برتری دے دی ہے۔ سارا دن کا گیم ہو تو 90 منٹ کا کھیل کون دیکھتا ہے۔
ملک میں ہاکی کلب موجود تھے اور کھلاڑیوں کو گھاس پر تربیت دے رہے تھے، جس کی وجہ سے ان کھلاڑیوں کو اعلیٰ سطح کے مقامی ٹورنامنٹس میں مشکلات کا سامنا تھا جو آسٹروٹرف پر کھیلے جاتے۔
یہ مسئلہ اس وقت کھل کر سامنے آیا جب ہاکی لیجنڈ حسن سردار نے انگلینڈ میں منعقد ہونے والے 1986 کے ورلڈ کپ میں نوجوان پاکستان ہاکی اسکواڈ کی قیادت کی۔ پاکستان لگ بھگ ہر میچ میں ناکام رہا۔
قوم صدمے کی حالت میں آگئی۔ حکومت نے فوری تحقیقات کا حکم دیا اور میڈیا ٹاپ کھلاڑیوں کا یہ ماتم سنانے لگا کہ انہیں مونگ پھلی (کرکٹروں کے موازنے میں) ہی دی جاتی ہے اور ہاکی فیڈریشن اور حکومت سے تنخواہوں میں معمولی اضافے کی درخواستیں کی جانے لگیں۔
شاہد علی خان نے، جو اس وقت ملک کے بہترین گول کیپر تھے، میڈیا کو بتایا کہ کھلاڑیوں کو فی میچ صرف 27 روپے معاوضہ ملتا ہے اور جب بھی اضافے کا مطالبہ کرتے ہیں تو حکومت کی جانب سے ایسا محسوس کرایا جاتا ہے جیسے وہ غدار ہوں۔
نواز شریف کی پہلی اور بے نظیر بھٹو کی دو حکومتوں نے ہاکی میں سرمایہ کاری کےلیے کارپوریٹ اسپانسرز کی حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے کھلاڑیوں کی فیس میں معمولی اضافہ بھی کیا اور ملک میں مزید آسٹروٹرف بچھانے کے احکامات دیئے۔
ان اقدامات سے پاکستانی ہاکی کو کچھ عرصے کےلیے دوبارہ بحال کرنے میں مدد ملی۔ اس کا آغاز 1990 کے ساتویں ہاکی ورلڈ کپ میں ہوا جو لاہور میں منعقد ہوا۔ پاکستان نے فائنل میں جگہ بنائی جہاں لوگوں سے بھرے اسٹیڈیم میں اسے ہالینڈ کے ہاتھوں شکست کا سامنا ہوا۔
پھر 1991 میں قومی ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی (جرمنی) میں بھی فائنل میں رسائی حاصل کی مگر وہاں بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اب شکستوں کے باوجود پاکستان ایک بار پھر عالمی رینکنگ میں اوپر آنے لگا اور آخرکار 1994 میں وہ چوتھے ورلڈ کپ ٹائٹل (سڈنی، آسٹریلیا) کو پانے میں کامیاب ہوگیا۔ پاکستان ہاکی ایک بار پھر ٹریک پر آگئی۔
مگر ورلڈ چیمپئنز بن جانے کے باوجود (ریکارڈ چوتھی بار) کھلاڑیوں کی فیس بدستور کم رہی اور کارپوریٹ دلچسپی بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس حوالے سے تمام تر توجہ کرکٹ کی جانب منتقل ہوچکی تھی۔
ایک دہائی بعد ہاکی اسکولوں سے غائب ہونا شروع ہوگئی اور ملکی ہاکی بورڈ دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ حالات اتنے بدتر ہوگئے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران تو بورڈ کی جانب سے اکثر پرائیویٹ پارٹیوں سے ٹیم کے غیرملکی دوروں کے فنڈ کےلیے درخواستیں کی گئی ہیں۔
1994 کی کامیابی اور کچھ ایشیائی ٹائٹلز سے ہٹ کر پاکستان ہاکی ٹیم کوئی بھی اہم ہاکی ٹورنامنٹ نہیں جیت سکی۔
ہاکی قومی کھیل کی حیثیت سے ایسے کھیل کی شکل اختیار کرگیا جس کے بارے میں موجودہ عہد کے کرکٹ کی دیوانی نسل کو بہت کم معلومات یا دلچسپی ہے۔ درحقیقت آج کے بیشتر پاکستانی نوجوانوں کو موجودہ پاکستانی ہاکی کھلاڑیوں کے مقابلے میں یورپی کلبوں کے فٹبال کھلاڑیوں کے ناموں سے زیادہ واقفیت حاصل ہے۔
وہ کھیل جو کبھی بہت زیادہ فخر اور جوش کا باعث تھا اور جو ایک جدوجہد کے شکار ملک کےلیے عزت کے اظہار کا باعث بن گیا تھا، اسے بدقسمتی سے مرجانے کی اجازت دے دی گئی۔
عمر بھر طعنہ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ اور بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
یہ نوحہ صرف منصور احمد مرحوم کا نہیں، بلکہ پاکستان ہاکی بھی آج تک اسی طعنہ زنی کی نوحہ گر ہے؛ ایک ایسا نوحہ جسے سننے کےلیے آج کا وہ میڈیا بھی تیار نہیں جو پل پل کی خبر رکھتا، خبر دیتا اور خبر لیتا رہتا ہے۔