تحریر: جاوید اختر جاوید، الریاض
سعودی عرب میں متعین سفیر پاکستان منظور الحق اپنی ذات میں ایک انجمن اور ادارہ ہیں، وہ بیوروکریٹ بھی ہیں بیورو گریٹ بھی اور ٹیکنو برین بھی اور ان کی باغ و بہار شخصیت سماجیات اور عمرانیات کا خوبصورت امتزاج ہے۔ وہ خوش فکر، خوش گفتار اورخوش مزاج ہیں، جب وہ ریگزاروں میں اپنی خالی مٹھی تپتی ریت سے بھرتے ہیں تو ان کی آنکھیں رات دن اپنے تعاقب میں شاخِ گل سے گل مراد چنتی ہیں ، وہ ہزاروں الجھنوں اور ہزاروں تضادوں میں گم رہنے کی بجائے تازہ دم کسی نئی جستجو کی تلاش میں رہتے ہیں۔
ان کے چہرے کی شگفتگی ہونٹوں کی مسکان اور شیرینی لہجہ جب دردِ دل تقسیم کرتا ہے تو وہ انسانیت کی تکریم کرتا ہے وہ محبتوں کے سفیر اور اقبالیات کے فکری اسیر ہیں۔
انھیں پشتو، انگریزی اور اردو ادب میں گہری دلچسپی ہے اور فارسی اور عربی زبانوں سے دلی لگاؤہے، ان کی شخصیت میں عوامیت اور عمومیت جھلکتی ہے، اس لیے مسجدوں کے عبادت گزار اور میخانوں کے مے خواران سے یکساں محبت کرتے ہیں۔
منظور الحق مصر میں بھی پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں، اس دوران انھوں نے اقبالیات پر ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد کیا ، اس سیمینارمیں عربی مقالہ نگاروں نے اقبالیات پر پُرمغز مقالات پیش کیے جس کی تفصیل درج ذیل ہیں۔
1: علامہ اقبال معمارِ وطن اور تاریخ ساز فاروق شوشہ
2: اقبال میرِ کاران عشق ڈاکٹر عفاف زیدان
3: اقبال مصر میں ڈاکٹر سعید جمال الدین
4: عالم عرب پر اقبال کے افکار کے اثرات ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم
5؛ محمد اقبال اور عرب ڈاکٹر ھناء عبدالفتاح
6: جمال الدین افغانی اور سید حلیم پاشا کی ارواح کی زیارت ڈاکٹر فصل الرحمن فاصل
7: اقبال اور دنیائے عرب غالب گیلانی
سفیرِ پاکستان جناب منظور الحق نے ان تمام مقالات کو ایک کتابی صورت میں ” فی ذکری اقبال” یعنی بیاِد اقبال کے نام سے بطور سفیراسلامی جمہوریہ پاکستان قاہرہ سے 2014 کو شائع کیا۔ یہ کتاب دراصل فاضل مقالہ نگاروں کے عربی زبان میں پیش کئے گئے مقالوں کا اردو ترجمہ ہے، تراجم سے زبانین، زبانوں سے قریب ہوتی ہیں اور فکر ونظر کو جلا ملتی ہے ان مقالات میں فاضل مقالہ نگاروں نے اقبال کی شاعری کا مختلف زاویوں سے تجزیہ کیا اور ان کو بھرپور خراج عقیدت پیش کیا۔
کتاب کا اقتباس پیش خدمت ہے، فاضل مقالہ نگار فاروق شوشہ لکھتے ہیں کہ اقبال نے ایک قوم کے فکری خدوخال واضح کرتے ہو ئے ایک نئی تاریخ رقم کی، علامہ اقبال کے عہد اور قرب ترین ادوارمیں مشرق نے تین عظیم شخصیات کو دیکھا، مشرق سے ابھرنے والی تینوں شخصیات تاریخ کے روشن باب کا حصہ بنیں۔
برصغیر پاک و ہند کے شرق سے با صلاحیت ، انسانیت سے محبت، انسانی طبیعت کیلئے خوبصورت نغمات اور خوش الحانی کی صفات سے متصف تھی ،ٹیگورنے اپنی شاعری کیلئے انگریزی اور بنگالی زبانوں کو ذریعہ اظہار بنایا۔برصغیر پاک و ہند کے مغربی خطے سے علامہ محمد اقبال کی شخصیت پو ری آب و تاب کے ساتھ رونما ہو ئی، آپ کی شخصیت میں مشرقی انداز، عربوں کی حکمت اور مغربی علوم یکساں جمع تھے، آپ فارسی ، اردو اور انگریزی زبان میں اسلام کی اس روحانی قوت کی تجدید کر رہے تھے جو دلوں میں امنگیں روشن کرنے والی اور عقلی قوتوں کو جلا بخشنے والی ہے۔
تیسرے بڑے شاعر مصرمیں احمد شوقی گزرے ہیں احمد شوقی عہدِ جدیدمیں عربوں کے حلقہ شعرو ادب کے سر خیل قرار پائے، عربی قومیت کی آواز بن کر ان کے دکھوں اور سکھوں کو بیان کیا۔
اقبال نے بلاشبہ غلامی کی زنجیریں تو ڑنے میں کلیدی کردار ادا کیاان کے کلام میں عربی کی حرارت، فارسی صباحت، اردو کی لطافت اور پنجابی ثقافت ہلکورے لیتے ہو ئے محسوس ہو تی ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے 25مارچ1940ء میں پنجاب یو نیورسٹی میں خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ اقبال کی شاعری زندہ رہے گی جب تک اردو زبان زندہ رہے گی، مسلمانوں کیلئے اقبال شیکسپیئر سے بڑھ کے ہیں، اگر تمہیں برطانیہ اور شیکسپیئر میں ایک کا انتخاب کرنے کو کہا جائے تو تم کسے چنو گے تو وہ بے اختیار پکار ا اٹھا میں شیکسپیئر کو کسی قیمت پر نہ دوں گا گو میرے پاس سلطنت نہیں لیکن مجھے سلطنت مل بھی جائے اور مجھے اقبال اور سلطنت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنا پڑا تو میں بلا تامل اقبال کو چن لوں گا اقبال ہے خودی کے تصور کا پیشرو اقبال کے بغیرخودی نا تمام ہے
اور بقول ورڈزورتھ
Up, Up, my friend, and quit your books
or sureluy we will Grow double.
تحریر: جاوید اختر جاوید، الریاض