تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
آج دورِ جدید کی سائنسی دنیا میں بھی بھوک و افلاس وہ مسائل ہیں جن کا دائمی حل زمینِ خدا پر بسنے والے ہر غریب اور غربت کا ڈسا اِنسان چاہتا ہے مگر افسوس ہے کہ دنیا کے مٹھی بھر امیروں اور حکمرانوں کے نزدیک برسو ںسے دنیا کے غریبوں اور بھوک وافلاس کی دلدل میں دھنسے اِنسانوں کا یہ مسئلہ محض ایک مسئلہ ہی ہے ایسا لگتا ہے کہ اِس مسئلے پر سب ماتم کرناتو چاہتے ہیں مگر دنیاکے غریبوں کے اِس مسئلے ک وتو کبھی بھی کسی نے حل کرنا ہی نہیں چاہا ہے۔
آج کی دنیاکے امیروں اور مسندِ اقتدارپر قابض حکمرانوں کی نظرمیں غربت بھوک و افلاس تو کوئی مسئلہ نہیں ہے کیوںکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آج جس طرح اِن کے تو پیٹ بھرے ہوئے ہیں تو اِسی طرح سب کے پیٹ بھرے ہوں گے…؟؟مگرایساہرگزنہیں ہے جیساکہ آج دنیاکے یہ پیٹ بھرے امیراور حکمران الوقت سمجھ رہے ہیں ابھی جب میں یہ سطوررقم کررہاہوں تو اِن لمحات میں بھی دنیاکے اربوں کھربوں غریبوں کو ایک وقت کی بھی روکھی سوکھی روٹی میسر نہیں ہے ایک ایک روٹی اور روٹی کے ٹکڑے کو ترستے اِن غریبوں کی سوچ اور حدِنگاہ صرف اپنی بھوک مٹانے کے لئے ایک روٹی کے حصول تک محدودہ ے۔
مگر افسوس ہے کہ دنیامیں اپنی دولت اور اپنی حکمرانی کے بل بوتے ہمیشہ زندہ رہنے والوں کی کو شش ہے کہ دنیاکے غریبوں کو بھوکارہنے دو مگر بھوک اور افلاس کی وجہ سے دہشت گردبننے والے غریبوں کا پہلے قلع قمع کروجو ہم امیروں اور حکمرانوں کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں آج دنیاکے امیروں اور حکمرانوں کا یہ نظریہ ہے کہ ہم دنیاسے غربت تو ختم نہیں کرسکتے ہیں مگر بھوک و افلاس سے دہشت گرد کے روپ میں اپنے مدمقابل کھڑے ہونے والے غریب دہشت گرداور دہشت گردوں کو اپنی تمام مشینری کا استعمال کرکے ضرور مارسکتے ہیں۔جس پر دنیاکے سارے امیراور حکمران الوقت سختی سے کاربندہ یں۔
اگرچہ دہشت گردی کا مسئلہ دنیاکے بنی نوع اِنسان کے بھوک وافلاس کے مسئلے سے تو بہت نیاہے مگر آج دنیاکے طاقتورامیرترین ممالک سمیت ہر درجے کے غریب اور ترقی پذیرممالک بھی دہشت گردی جیسے مسئلے کے فوری حل کے لئے تو سینہ جوڑ اور سر پھوڑ کوششوں سے مگن ہیں مگر کسی نے کبھی بھی یہ نہیں چاہاہے کہ موجودہ دہشت گردی سے بھی بڑااور پرانادنیاکا غربت اور بھوک وافلاس کامسئلہ دائمی طور پر حل کرکے دنیاکو دہشت گردی سمیت اور دیگر مسائل سے بچائے ایساکسی نے کبھی یوں بھی نہیںسوچاکہ کوئی نہیں چاہتاکہ دنیاسے غربت اور بھوک وافلاس کا خاتمہ ہو۔
یہاں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ آج اصل میںبات یہ ہے کہ حقیقتا پاکستان سمیت دنیاکے غریب اور ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں کی شکل میںکچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ نہیںچاہتے ہیں کہ غریبوں کابھوک و افلاس کا دیرینہ مسئلہ حل ہو…کیوںکہ اِن کا خام و قوی خیال یہ ہے کہ آج اگر پاکستان سمیت دنیا کے غریب ممالک کے بھوک و افلاس سے متاثرہ لوگوں کا یہ دیرینہ مسئلہ حل ہوگیاتو پھر یہ کس پر اپنی حکمرانی کا سکہ چلائیں گے..ََ؟ اورپھر کون اِن کے پیچھے چلے گااورآئے گا…؟؟کون اِن کی جوتیاں سیدھی کرے گا..؟؟اور کون ہردوچارسال بعد ہونے والے انتخابات میں اِن کے جلسے جلوسوں میں اِن کے قصیدے پڑھے گا…؟؟ اِس میںشک نہیں کہ ازل ہی سے بھوک غربت کا سب سے زیادہ خوفناک اور اقوامِ عالم کے لئے قابلِ عبرت تحفہ ہے اہلِ دانش کا ہر زمانے کی ہرتہذیب کے ہرحکمران کے ہردورِحکمرانی کے ہر معاشرے کے اِنسانوں سے متعلق یہ کہنارہاہے کہ بھوک جہاں بھی آتی ہے یہ اپنے ساتھ بہت سی اخلاقی و معاشرتی اور سماجی و سیاسی اور تہذیبی و مذہبی خرابیوں کی بیماریوں جس میں دہشت گردی سمیت اور بہت سی ایسی نفسیاتی بیماریاں ساتھ لاتی ہے جو مُلکوں کی سرحدوں ، تہذیبوں سے نکلا کر دوسرے مُلک میں داخل ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ ساری دنیاکو ایسے ہی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جیسی کہ آج دہشت گردی نے دنیاکے ہر مُلک کو اپنے شکنجے میں جکڑ کر دنیاکے اِنسانوں کو اپنے سائے اور اپنی سانس سے بھی خوفزدہ کردیاہے دنیاکے دانشورانِ قوم و ملت کا بھوک سے متعلق یہ بھی کہناہے کہ آج بھی دنیاکے اتنے اِنسان دہشت گردی سے نہیں مرے ہیں جتنے کے بھوک و افلاس کی وجہ سے مرچکے ہیں ایک یہ بھی محاورہ مشہورہے کہ اتنے لوگ جنگلوں میں نہیں مرے جتنے کہ غذائی قلت کا شکار ہوکراِس ہری بھری دنیاسے کوچ کرگئے۔
بہرحال…!!پاکستان میں بھوک وافلاس سے متعلق گلوبل ہنگر انڈیکس کی جانب سے جاری ہونے والی حالیہ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ پاکستان میں بھوک و افلاس کی صورتِ حال تشویش ناک ہے خبرہے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس میں شامل دنیاکے 117ممالک میں پاکستان 93نمبرپر ہے۔ جبکہ گلوبل ہنگرانڈیکس نے اپنی اِس رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ رپورٹ غیر جانبدار ی اور ہر طرح کے شک وشبہات سے بالاتر ہوکر تیارکی گئی ہے اپنی رپورٹ میں گلوبل ہنگر انڈیکس کا اپنے اِس دعوے کے ساتھ یہ بھی کہناہے کہ بھوک اور افلاس کے لحاظ سے بھارت اور بنگلہ دیش کی پوزیشن پاکستان سے بہت بہتر ہے رپورٹ میں اعدادوشمارکا سہارالیتے ہوئے واہ شگاف انداز سے یہ انکشاف بھی کیاگیاہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں پاکستانی آبادی کا 22فیصدحصہ اوربنگلہ دیشی آبادی کا لگ بھگ 17فیصدحصہ خوراک کی کمی کا شکار ہے جبکہ اِسی خطے سے تعلق رکھنے والاکثیرآبادی رکھنے والا ایک مُلک بھارت بھی ہے جو 1947میں اِس سے آزادی لینے والے پاکستان اور اِسی طرح 1971میں پاکستان سے علیحدہ ہونے والے مُلک بنگلہ دیش سے کئی گنازیادہ آبادی والامُلک جانااور پہچانا جاتا ہے بھارتی آبادی کی پوزیشن خوراک کے حوالے سے پاکستان اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں خاصی مستحکم اور بہتر ہے۔ تاہم گلوبل ہنگرانڈیکس کی رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ وسطیٰ افریقہ ، چاڈ اور زیمبیا کے افرادکو بھی شدیدترین بھوک کا سامنہ ہے اِن ممالک سے متعلق رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ یہاں بچوں کی شرح اموات میں بھی روزبروزاضافہ ہوتاجارہاہے رپورٹ میں خوراک اور بھوک و افلاس سے متاثرہ ممالک میں ہونے والے اضافے کی وجوہات سے متعلق کہاگیاہے کہ جن ممالک میں مسلح تصادم کا سامناہے وہاں کے افرادکو سب سے زیادہ خوراک کی کمی اور بھوک و افلاس کا سامناہے گلوبل ہنگرانڈیکس نے اپنی رپورٹ میں مزید کہاہے کہ ایسٹ تیمور، سیرالیون ، ہیٹی،مڈغاسکر، افغانستان، نائیجریا اور یمن کو بھی اِن پہلے10ممالک کی فہرست میں شامل کیاگیاہے جہاںخوراک کی کمی میں مبتلاافرادکی تعداد میں خطرناک حدتک اضافہ ہو چکا ہے“۔
اگرچہ آج گلوبل ہنگرانڈیکس کی اِس رپورٹ کا باریک بینی سے جائزہ لیاجائےتویہ بات حقیقت مبنی سچ لگنے لگے گی کہ GHIنے اپنی رپورٹ میں پاکستان سے متعلق جو اور جتنابھی انکشاف کیاہے وہ سوفیصد درست ہوسکتاہے مگر پھربھی ایسانہیں ہوسکتاہے جیساکہ GHIنے اپنے دعوو ¿ں کے ساتھ اپنی رپورٹ میں انکشافات کئے ہیں یہ ایک علیحدہ بحث ہے مگرساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج پاکستان میں جتنی بھی خامیاں اور بُرائیاں ہیں اِن سب کے ذمہ دار 68سالوں کے دوران پاکستان میں آنے والے سول اور عسکری وہ حکمران ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دورِ اقتدارمیں اپنے سے خود کرنے کے بجائے اپنے امریکی اور برطانوی آقاو ¿ں کےصلاح مشوروں سے وہ کچھ کیاجواور جیسا اِن کے آقا چاہتے تھے یوں ہمارے سب ماضی کے (سِول اور عسکری) حکمران اپنے آقاو ¿ں کی مرضی کے مطابق اپنااپناوقت گزارچلتے بنے اور قوم کو بھوک و افلاس کی دلدل میں دھنسے رہنے دیااور جب اِس سے بھی اِن کا جی نہ بھراتو یہ جاتے جاتے اپنے قوم کو دہشت گردی کے اژدہے کے حوالے بھی کرکے چلے گئے۔
آج جہاں گلوبل ہنگرانڈیکس نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیاہے کہ پاکستان میں بھوک اور افلاس کی صورتِ حال تشویشناک حدتک ہے تووہیں سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک صوبائی وزیرجو سوتے جاگتے ہر حال میں اپنی بند اور کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں یعنی کہ موجود سندھ حکومت کے وزیرخوراک سائیں منظورحُسین وسان نے سندھ میں آٹے اور روٹی کی قیمتوںمیں اضافے کی خبروں کا سخت نوٹس لیاہے۔ اَب مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ جب وسان سائیں نے اپنا سخت نوٹس لیا یہ کس کیفیت میں تھے میرامطلب ہے کہ یہ سورہے تھے یا جاگ رہے تھے مگر چونکہ ابھی سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دن قریب ہیں اور لاہورکے حلقہ NA-122کے ضمنی انتخاب میں اِن کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی پوزیشن کیا اور کیسی رہی تھی…؟؟ آج یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے سو کم ازکم سندھ میں اپنی پارٹی کی پوزیشن بلدیاتی انتخابات میں کچھ یعنی کہ آٹے میں نمک جتنی بہتر بنانے کے لئے سندھ کے وزیرخوراک منظورحُسین وسان نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات سے قبل آٹے اور روٹی کی قیمتیں بڑھانے والوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت دے دی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہاہے کہ سندھ میں گندم رعایتی قیمتوں پر فراہم کی جارہی ہے سندھ میں کسی کو آٹے اور روٹی کی قیمتوں میں من مانااضافہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
یہاں میراخیال یہ ہے کہ اَب وسان سائیں نے جس حال میں بھی سندھ میں آٹے اور روٹی کی قیمتوں میں اضافے کا سخت نوٹس لیا اور اِسے کنٹرول کرنے کے لئے کارروائی کی ہدایت دی دیکھنایہ ہے کہ اِن کا یہ عندیہ محض اخباری بیان تک ہی محدود رہے گایا یہ حقیقی معنوں میں بھی سندھ میں آٹے اور روٹی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے والوںکے خلاف قانون کے مطابق سخت اقدامات بھی کریں گے یاپھر آنکھ بندکرکے سوجائیں گے اور اپنی خوابوں کی دنیامیں مگن رہیں گے اور پھر یہ کہیں گے کہ سائیں میں خوابوں کا بندہ ہواور خوابوں میں زندہ رہتاہوں جو کچھ کہاسُناوہ تو سب خواب تھااور ہر خواب ضروری نہیں ہے کہ سچ بھی ثابت ہوجائے اور میں آٹے اور روٹی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے والوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی کرلوں۔
تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com