تحریر :میاں نصیر احمد
23 مارچ پاکستان کی تاریخ کا اہم دن ہے قوموں کی باوقار زندگی اور ان کی ترقی کا انحصار مقاصد سے وابستہ ہے اگر ان کی جدوجہد اورکوشش حصول مقاصد کی خاطر ہوتو عزم وہمت کو بلند کردیتی ہے اور اگر منزل پر پہنچنے کے بعد مقاصد فراموش کردیے جائیں تو قومیں زوال کا شکار ہوجاتی ہیںقرارداد پاکستان جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی جوسات برس کے مختصرعرصہ میں اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی ،قرارداد پاکستان وہ مطالبہ جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھر 23 مارچ کا دن ہر سال اہل پاکستان کو اس جذبے کی یاد دلاتا ہے جو قیام پاکستان کا باعث بنا23 مارچ 1940 پاکستان اور برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سنہری دن ہے اس روز برصغیر کے کونے کونے سے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے اپنے قائد محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر مسلمانوں کی آزادی اور ایک الگ وطن کے قیام کے لئے قرارداد منظور کی جسے قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو 1941 میں نہ صرف مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بنی بلکہ اسی کی بنیاد پر سات سال بعد 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیاہمارے بزرگوں نے ہندوں کے ساتھ رہنے
ان کا رویہ دیکھنے کے بعد الگ ملک کاخواب دیکھا پاکستان اور برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سنہری دن تھااور اس روز برصغیر کے کونے کونے سے لاکھوں مسلمانوں نے اپنے قائد محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانوں کی آزادی اور ایک الگ وطن کے قیام کے لئے قرارداد منظور کی جسے قرارداد لاہور یا قرارداد پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو 1941 میں نہ صرف مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بنی بلکہ اسی کی بنیاد پر سات سال بعد 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا 23مارچ0 194 کو لاہور میں مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کو حاصل کرنے کے قرارداد پیش کی گئی اور جسے سب نے متفقہ فیصلے سے قبول کرلیا اس قرارداد کے ذریعے پہلی مرتبہ یہ واضح کیا گیا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ قومیں ہیں، جو ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں ان کا مذہب، عقیدہ اور رسم و رواج سب مسلمانوں سے الگ ہیں وہ ایک الگ وطن چاہتے ہیں جہاں وہ کھل کے آزادی کے ساتھ سانس لے سکیں اور اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرکے زندگی گزار سکیں اس قرارداد میں بہت واضح الفاظ میں یہ کہہ دیا تھا 23 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک موجودہ اقبال پارک میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی اور اسی دن 1956 میں پاکستان کا پہلا آئین منظور ہوا اس روز یوم پاکستان کے طور پر منانے کا اعلان سرکاری طور پر ہواپورے برصغیر کی مسلمان قیادت نے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے
نئے عزم اور ولولے سے سفر آزادی شروع کرنے کا عہد کیا اورجب قائد اعظم 21 مارچ کو فرنٹیئر میل کے ذریعے لاہور پہنچے ریلوے اسٹیشن پر تل دھرنے کو جگہ نہ تھی لوگوں کا جوش قابل دید تھاقائداعظم زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے ساری فضا گونج رہی تھی23 مارچ 1940 کاتاریخی جلسے اور قرارداد کو اس لیے بھی اہم مقام حاصل ہے کہ یہ ایک اجتماعی سوچ کا شاخسانہ تھااور اجتماعی طور پر تمام مسلمان ایک قوت اور ایک تحریک کا روپ دھارے ہوئے تھے اس سے پہلے ان کی کوئی سر زمین نہیں تھی جہاں وہ اپنے عقیدے اور اپنے مذہب کے مطابق آزادی سے زندگی بسر کر سکیں اور ایسی سر زمین کے حصول کی لگن نے انہیں یکجا کردیا تھااوریہ قوم ایک ہی قائد کی سربراہی میں پروان چڑھ رہی تھی یہ دن یہ وقت جسے تمام دنیا نے ایک خواب سے تعبیر میں ڈھلتے ہوئے دیکھا وہ دن وہ وقت 23 مارچ 1940 تھااس دن کا حال ایسا تھا جیسا ہمارے اسلام نے ہمیں درس دیا ہے اسلام نے تمام قسم کی فرقہ واریت کو پس پشت ڈال دیا اور رنگ، نسل اور زبان کے فرق کو ختم کردیا اس دن بھی نہ کوئی سندھی تھا، نہ کوئی پنجابی اور نہ ہی کوئی پٹھان تھاوہ سب مسلمان تھے ایک اللہ کو ماننے والے تھے اور اسی کے پیروکار تھے 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں جو قرارداد منظور کی گئی تھی، جن مقاصد کے حصول کا اعلان کیا گیا تھا، ان کا بڑا مقصد اسلامی مملکت پاکستان کے قیام کی خاطر جدوجہد تھی جو 1947ء کو کامیابی سے ہمکنار ہوگئی تھی آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کی یہ متفقہ رائے ہے کہ اس ملک میں اس وقت تک کوئی دستوری خاکہ قابل عمل یا مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا
جب تک کہ وہ درج ذیل اصولوں پر مرتب نہ کرلیا جائے یعنی جغرافیائی لحاظ سے ملحقہ علاقے الگ خطے بنا دئیے جائیں اور ان میں جو علاقائی ترمیمیں ضروری سمجھی جائیں، تاکہ ہندوستان کے جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں انہیں یکجا کرکے آزاد ریاستیں بنا دی جائیں، جو خود مختارہوںاس تاریخی اجتماع کا آغاز 22 مارچ 1940ء کو ہوا تھااور قائداعظم محمدعل جناح نے اسی دن 22 مارچ 1940ء کو ان اہم اور تاریخی لمحات میں ڈھائی گھنٹے تقریر کی اس تقریر میں انھوں نے فرمایا کہ مسلمان کسی بھی تعریف کی رو سے ایک قوم ہیں ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں اورسماجی عادات علوم سے تعلق رکھتے ہیںاوریہ لوگ نہ تو آپس میں شادی کر سکتے ہیںاور نہ ہی یہ لوگ اکٹھے کھانا کھا سکتے ہیں اور یقیناً یہ لوگ مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو بنیادی طور پر اختلافی خیالات اور تصورات پر محیط ہیں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے بیگم مولانا محمد علی جوہر نے سب سے پہلے قرارداد پاکستان کا لفظ استعمال کیااورہندوستان کی تقسیم سے قبل ہی آل انڈیا مسلم لیگ نے 1941ء سے 23 مارچ کے دن ہندوستان بھر میں یوم پاکستان منانا شروع کر دیا تھا
قرارداد میں پاکستان کا لفظ شامل نہیں ہوا تھا لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی تھے 1943ء میں قائداعظم نے اپنی ایک تقریر میں قرارداد لاہور کے لیے پاکستان کا لفظ قبول کرتے ہوئے اسے قرارداد پاکستان قرار دیااور قائداعظم اور مسلم لیگ کے ارکان اسمبلی کے کنونشن 1946ء نے بہتر اور واضح شکل دی اس قرارداد میں جو مطالبہ پیش کیا گیا تھا اس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے 1946ء کے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی اور 14 اگست 1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا قائداعظم کی جدوجہد سے 1931ء میں اس کی بحالی اس امر کی ایک بڑی مثال ہے جہاں پر بڑی ہی غورطلب بات یہ ہے کہ یہی امر دراصل قرارداد پاکستان کی بنیاد بنا جس نے مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کا تعین کیااور ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس رنگ و نسل کے فرق سے بالا تر ہو کر اس عظیم ملک کے بارے میں سوچیں جو ہمارے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے ہمیں تاریخ اور قرارداد پاکستان سے سبق لینے کی ضرورت ہے ائیے ہم عہد کریں کہ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کی خاطر اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں۔پاکستان زندہ باد
تحریر :میاں نصیر احمد