تحریر : محمد ریاض پرنس
دنیا 1911ء سے خواتین کا عالمی دن منا رہی ہے اور خواتین کو ان کے حقوق دلانے کے لئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ان کو ان کے حقوق دلانے کے لئے بہت سی عالمی تنظیمیں اور ادارے کام کر رہے ہیں ۔ایک سو سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے بائوجود خواتین کو ان کے پورے حقوق میسر نہیں ہو سکے۔ البتہ عورت کو زندگی کے ہر شعبہ میں اس کی نمائندگی ضروری ہو گئی ہے۔ مثلاً ان خواتین کا جو گھروں کی چاردیواری سے لے کر ایوانوں اقتدار کی کرسیوں تک رسائی، سوئی سلائی، چولھا ہانڈی کرنے بچوں کی نیپیاں بدلنے کھیتوں میں کام کرنے، گائے، بھینسوں کو چارہ کھلانے، گوبر صاف کرنے، دودھ دہنے، چارہ کاٹنے، زمینوں میں کام کرنے، گندم، مونجی، مکئی، گنا کی فصل کاٹنے سے لے کر دکانوں میں سلیز گرلز کی نوکریاں، کال سنٹروں میں، کسٹمر سروسز سنٹر، دفاتر میں سیکرٹریز کی زمہ داری نبھا رہی ہیں۔
مگرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مردوں کا عالمی دن نہیں منایا جاتا توپھر خواتین کا عالمی دن منانے کی کیا ضرورت ہے ۔شائد اس لئے کہ دنیا خواتین کو ان کا حق بجاطور حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے ۔یاپھر شائد مردوں کے اس معاشرے سے تسلیم کروانے کے لئے کہ ہاں ہم صنفی امتیاز برتتے ہیں۔
خواتین اس وقت ہر شعبہ میں مردوں کے ساتھ کام کر کے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں ۔اب دنیا میں کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں خواتین اپنا کردار ادا نہ کر رہی ہوں مگر پھر بھی خواتین کو ان کے حقوق نہیں مل رہے اور کو ان کا پورا حق میسر نہیں۔اگر خواتین کو معاشرہ میں ان کا مقام اور ان کے حقوق میسر نہیں ہونے تو پھر یہ دن منانے کا کیا فائدہ۔فائدہ تو تب ہو کہ خواتین کو ان کے پورے حقوق مل سکیں۔مردوں کے مقابلہ میں خواتین زیادہ محنتی اور لگن سے کام کرنے والی ہیں۔
خواتین مردوں سے زیادہ کام کرتی ہیں ۔دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جہاں خواتین سے مردوں کے مقابلے میں زیادہ کام کروایا جاتا ہے ۔ مگر پھر بھی ان کا پور ا حق ان کو نہیں ملتا۔ جہاں مردوں کو زیادہ اجرت ملتی ہے اسی جگہ عورت کو کام کی اجرت مرد کے مقابلہ میں کم دی جاتی ہے یہ کہاں کا انصاف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ خواتین اپنی راہیں متعین کرنے کے بجائے مردوں کے ساتھ اس دوڑ میں جا کھڑی ہوئیں ہیں جہاں وہ بہت زیادہ محنت کرنے اور قربانیاں دینے کے باوجود جیت ان کا مقدر نہ بن سکی ۔برابری کے حقوق حاصل کرنے کی کوشش میں نسوانیت کا جوہر بھی کہیں کھو گیا۔ترقی یافتہ ممالک کی ترقی ،ترقی پذیر کی کوشش اور غیر ترقی یافتہ تنزلی کوئی بھی خواتین کو ان کاحق نہ دلا سکی۔
معاشرہ کوئی بھی ہو اوروہ کتنی ہی باشعور اورتعلیم یافتہ کیوں نہ ہوآج بھی ایک کمزور،مجبور ،محروم اور ڈری سہمی عورت ہے۔وہ ہزار کوشش کر لے وہ مرد نہیں بن سکتی۔کیونکہ وہ ایک عورت ہے اور عورت ہی رہے گی۔
اس کی تخلیق ،مزاج ،اس کے اندازاوراطواربنائے ہی مختلف گئے ہیں۔وہ کسی طور بھی ان صفات کی مالک نہیں بن سکتیں جو مرد کو دی گئیں ہیں۔ مگر ایک طرف تو عورت کودنیا کے خوبصورت ترین خطابات اور القابات سے نوازا گیا ہے تو دوسری طرف پھر بھی عورت معاشرہ میں محض مردوں کے ہاتھوں پسنے والی ایک مظلوم ہستی کی صورت میں نظر آتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ بھی عورت کی مظلومیت کی داستانوں سے بھر پڑی ہے۔
ہر سال 8مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔مگر کتنی خواتین کو پتہ ہے کہ اس عالمی یوم کا مقصد کیا ہے ۔شاید دوفی صد کو بھی پتہ نہ ہو ۔سچ تو یہ ہے کہ ہم پورا سال ہی یوم انسانیت مناتے رہیں کہ اصل ضرورت تو انسانیت کو زندہ کرنے کی ہے۔ باقی سب باتیں تو بس باتیں ہی ہیں ۔بہر کیف عورت کو اپنی بقا کی جنگ خود ہی لڑنی پڑے گئی ۔اس کے علاوہ کوئی بھی نہیں جو اس کے لئے جدوجہد کرے۔اور ان کو ان کا حق دلا سکے۔
تحریر : محمد ریاض پرنس
03456975786