تحریر: بشیر خالد
پاکستانی معاشرے میں خواتین کے مقام کااحترام کیا جاتا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے خواتین کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے۔ شاید اسی لیے خواتین کی ذمہ داریاں بھی کافی زیادہ ہیں مگر جو حقوق انھیں حاصل ہونے چاہئیںان میں ابھی تک امتیاز روا رکھا جاتا ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ آج کے یوم خواتین کا موضوع ایسا کر دکھائیں نہایت با معنی اور موزوں ہے ۔اس موضوع میں وہ تمام امکانات موجود ہیں جنہیں کر دکھانا وقت کا تقاضا ہے۔ خواتین کی بہبود ایک نصب العین ہے جسے بہرحال پورا ہونا چاہیے۔
خواتین کے حقوق کی حفاظت اور ہر قسم کے امتیازی سلوک کا خاتمہ کرنے کے لیے جو بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر کنونشن ہوئے ہیں پاکستان ان کا سرگرم حامی ہے اور جو فیصلے اور قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں پاکستان سنجیدگی کے ساتھ اُن کی ایک ایک شق پر عمل درآمد کرتا ہے ۔سی ای ڈی اے ڈبلیو کے فیصلے حقوقِ نسواں کو یقینی بنانے کے لیے رہنمائی کرتے ہیں۔ میری حکومت ان کے عملی نفاذ کے لیے ٹھوس اقدامات کر رہی ہے۔ میں اس امر پر پختہ یقین رکھتا ہوں کہ خواتین کی شرکت کے بغیر کوئی ملک اور معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم خواتین کو بااختیار بنانے کا مکمل عزم رکھتے ہیں اور ہر سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
میری حکومت ملک میں خواتین کی بہبود کے لیے موجود اداروں کو متحرک اور سرگرم رکھنے کے لیے اقدامات اُٹھا رہی ہے۔ قومی کمیشن برائے وقارِ نسواں کو معاشرے کی کمزور خواتین کے تحفظ اور حقوقِ نسواں پر حقیقی معنوں میں عمل درآمدکے لیے مؤثر بنایا جا رہا ہے۔اس ضمن میں جو قانونی اور انتظامی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے متعلقہ وفاقی اداروں کو اس کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ خواتین کے حقوق کا تحفظ ایک قومی فریضہ ہے جسے کامیابی کے ساتھ انجام دینا ہو گا ۔اس سلسلے میں ہمیں اقوامِ متحدہ ، بین الاقوامی اداروں اور سماجی بہبود کی تنظیموں کی طرف سے پرخلوص معاونت حاصل ہے جو قابلِ تحسین ہے۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کو خواتین کے حقوق کے تحفظ اور مثبت رویّوں کو فروغ دینے کے لیے ہرممکنہ اقدامات اُٹھانے کی ذمّہ داری سونپی گئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ تمام صوبائی حکومتیں اس پر عمل درآمد کریں گی ۔وفاقی حکومت کی طرف سے جو حمایت اور معاونت درکار ہو گی فراہم کی جائے گی۔ پاکستان میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر خواتین کا احترام کیا جاتا ہے ۔ عملی زندگی میں خواتین کے لیے سازگار حالات اور ماحول پیدا کرنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ میں سول سوسائٹی ، مخیر حضرات ، ذرائع ابلاغ ، کاروباری شعبے اور تمام متعلقہ محکموں ، اداروں اور حلقوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ” ایسا کر دکھائیں ”کہ خواتین کو کسی امتیاز کے بغیر عملی زندگی میں یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس نیک مقصد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ہم اپنی پرخلوص کوششیں جاری رکھیں گے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
تحریر: بشیر خالد