تحریر : شاہد جنجوعہ
جنہوں نے غلطیاں کیں وہ اگر مان لیتے تو یہ نوبت نہ آتی مگرجب پوائنٹ آئوٹ کرکے ان کے نوٹس میں یہ کمزوریاں اور تضادات لائے گئے تو وہ اکڑ گئے، الٹا جھوٹا پروپیگنڈا اور الزام تراشیاں کرنا شروع کردیں مگر ایسا کرتے وقت وہ لوگ بھول گئے کہ جس شخص نے تمھیں زندگی کے 27سال کا ایک ایک پل دیا، اپنی جیب سے خرچ کرکے ہر محاذ پر تمہارامقدمہ لڑا، ہر موقعے پر تمہارے ساتھ ڈٹا رہا، اسکے پاس تمہاری کس کس چیز کا ریکارڈ نہیں ہوگا ؟ آپ نے اسکی بات سننے کی بجائے ایسے تمام مخلص صاحب درد لوگوں کو زبردستی دشمنوں کو صفوں میں دھکیلنے کی ہر ممکن کوششیں کیں۔ آپکی صف اول میں موجود ایسے نادان لوگ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، انہیں پتہ ہی نہیں کہ کمپلینٹ کیسے ہینڈل کی جاتی ہیں اور اصولی معاملات کیسے حل کئے جاتے ہیں۔
انکی تمام تر گالی گلوچ کے باوجود میں اپنا موقف بھرپور دلائل اور حقائق کی روشنی میں ہر ایک کے سامنے رکھ رہا ہوں انکی طرح جذباتی ہوکر واویلا نہیں کرتا، حالانکہ منہاج ویلفئیر فائونڈیشن میں کرپشن سے لیکر کئی اور بڑے بڑے پراجیکٹ کی کرپشن تک کا پتہ ہونے کے باوجود میں نے ایک لمبے عرصے تک برداشت کیا کہ چلو یہ لوگ ن لیگ اور پیپلزپارٹی سے تو بہتر ہیں مگر ایک لمبا عرصہ تحریک کو دینے کے بعد حقائق سے روشنائی ہوئی تو معلوم پڑا کہ فرشتوں جیسے دعوے کرنے والے یہ لوگ کارکردگی کے حوالے سے اپنا موازنہ ن لیگ سے شروع کردیتے ہیں۔ یہی تضاد بیانی ناکامی کا ایک سبب ہے اور عوام ان کی قلابازیوں پر ہنستی ہے اگر کسی کے دل میں تحریک کا درد ہے تو وہ آگے بڑھے اور قیادت کو ایسے نااہل ، موقع پرست پیسے کے پجاری مشیروں سے چنگل سے چھڑوائے ورنہ کچھ نہیں بچے گا آپ کی ورتھ پبلک میں اس وقت صفر ہے
عوام آپ سے مایوس ہو چکی آپ کے عمل سے لوگ آئندہ انقلاب کا نا م سنتے ہی کانوں میں انگلیاں دبا کر بھاگ جایاکرینگے ، خدا را میرا درد سمجھو اور سوچو کہ اتنی محنت اور شہادتوں کے باوجود آپ کو کیوں کچھ نہیں ملا بلکہ ایک بات اور کہہ دوں کہ جو قبریں آپ کھود کے آئے تھے انکا کیا کیا جائے کئی لوگوں نے کہا اسے منہاج القرآن کی اعلیٰ قیادت کیلئے چھوڑ دیا جائے اور یہاں پر انکا انقلابی مقبرہ بنا دیا جائے پھر کسی نے انکشاف کیا کہ قیادت نے تو اپنا مقبرہ بنوایا ہوا ہے اور وہ جگہ جسے گوشہ درود کا نام دیا گیا ہے دراصل وہ انکا اپنا مقبرہ ہے اب وہ خود ہی اس خبر کی تصدیق یا ترید کرکے معمہ حل کرسکتے ہیں اور اگر خاموشی اختیار کی گئی تو اسکا مطلب بھی یہی ہوگا کہ یہ خبر بہرحال درست ہے ۔ بات ڈی چوک کے احاطے میں دھرنے کے دوران کھودی جانیوالی قبروں کی ہورہی تھی تو اس پر کچھ علماء نے کہا کہ اب کسی نہ کسی کو ان قبروں میں ضرور جانا چاہیئے پھر حل یہ ڈھونڈا گیا کہ وہاں درخت لگا دئیے جائیں۔ اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ آپ لوگوں کو ایسی باتوں کا موقع ہی کیوں دیتے ہیں؟ کوئی ہے جو قیادت کو اسطرح کے بیانات دینے سے روکے؟
آپ کبھی انتخابات کو ھرام قرار دیتے ہیں اور کبھی حلال ، آپ کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ جو بھی الیکشن میں حصہ لے گا وہ اس نظام کا حصہ دار بنکر کرپٹ ہوجائے گا ، یہ بوسیدہ عمارت ہے اسلئے اس چھت کے نیچے مت جانا کچل کر مرجا ئوگے اور جب وقت آیا آپ خود اس بوسیدہ عمارت میں گھس گئے ۔ آپ ایسا کرنے پر اس لئے مجبور ہوئے کہ آپ کے پاس دھرنے سے واپسی یا فرار کا کوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا آپ نے جو بڑے بڑے دعوے کئے تھے وہ آپ کے سامنے تھے اس لئے آپ نے اس بوسیدہ گلی سڑی عمارت میں گھسنے کا آپشن استعمال کرکے راہ ِفرار اختیار کی ورنہ جو آپ کے ساتھ ہونا تھا اسکا اندازہ عام کارکنان سوچ بھی نہیں سکتے۔ آپکی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپکی تمام میٹنگزٹیپ ہوئیں اور اب بھی جن کو آپ پاکدامنی کے سرٹیفکیٹ دیتے ہیں دراصل انہی لوگوں نے آپ کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور اندر سے آپکو کھوکھلا کرکے دنیا کے سامنے ننگا کردیا ہے۔
آپ نے سرجھکا کر اس کرپٹ نظام کا حصہ بننے کا اعلان کیا حالانکہ آپ کو خوب پتہ ہے کہ سوسال میں بھی آپکو اس نظام سے کچھ نہیں ملنے والا مگر اس میں رہنا مجبوری کا سودا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا جب 1989 ء کے الیکشن میں عوامی تحریک کی شکست کے بعد مرکز میں میٹنگ ہوئی آپ عوامی تحریک کو غیر سیاسی کرنے کا اعلان کرنے سے پہلے مشاورت کی خانہ پری کرنا چاہتے تھے وہاں تین بندوں نے اعتراض کیا اور ان میں سے ایک میں تھا۔ ہماری بات نہ سنی گئی اور اعلان ہوگیا اور اسکے اثرات اور نتائج آج یہ ہیں کہ ووٹر چھوڑیں پاکستان عوامی تحریک کے پاس 440 امیدوار بھی نہیں ہیں الامان الحفیظ ، بتائیں کہاں گیا آپ کا انقلاب؟؟؟
میں مانتا ہوں آپ فرشتہ نہیں، ہرایک سے غلطیاں ہوتی ہیں مگر لوگ غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہیں، سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں ، مختلف موقف رکھنے والوں کو سنا جاتا ہے، انکے ساتھ دلائل سے بات چیت ہوتی ہے اور باہمی طور پر مل جل کر ایک رستہ نکالا جاتا ہے مگر منہاج القرآن میں ایسا کیوں نہیں ہوتا ۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں اور جب تک اسکا جواب اعلیٰ قیادت نہیں دیتی آپ اس دلدل میں مزید دھنستے چلے جائیں گے۔ سمجھ نہیں آتی کہ کیوں ہروقت مبالغہ آرائی، عجلت پسندی اور غلو سے کام لیا جاتا ہے افسوس آج بدقسمتی سے قیادت ایسے لوگوں کے حصار میں ہے جنھیں قافلہ لٹ جانے کا احساس ہی نہیں اور ایک سازش کے زریعے سکیورٹی کا بہانہ بناکر عوام، کارکنان اور مشن کا درد رکھنے والے صاحب الرائے لوگوں سے قیادت کو دور کردیا گیا ہے ۔ اب کوئی پلیٹ فارم ہے نہ تھنک ٹینک ،جو قیادت کو فیڈبیک دے ، سطحی قسم کے کم ظرف لوگوں کا قبضہ ہے۔
یہ قیادت کو ایک ہی کہانی سناتے ہیں کی حضور ہمارے علاوہ آپکا کوئی وفادار نہیں اگر آپ نے مشن بچانا ہے تو ایک حل ایک ہی ہے کہ مشن کو صاحبزدگان کے حوالے کردیا جائے اور ان کے علاوہ تحریک کو کسی کی ضرورت ہی نہیں۔ جو اس سے مختلف رائے رکھتا ہو یا اقرباء پروری کی بجائے اہلیت اور میرٹ کی بات کرتا ہے وہ عوامی تحریک چھوڑ کر دوسری کوئی اورجماعت جوائن کرلے۔ یہ موقف بذاتِ خود ایک بھونڈا مذاق ہے۔ ایسے مشورے دینے والے مشیروں کی نوکریاں لگی ہیں، مشن کے نام پر انکے خاندان پل رہے ہیں، انہوں نے آپس میں رشتہ داریاں بنائی ہوئیں ہیں ، جو اپنے بل بوتے پر موٹرسائیکل نہیں لے سکتے تھے، جنہیں کوئی رکشہ ادھار نہیں دیتا تھا، وہ آج کروڑوں کی بلٹ پروف لینڈکروزر زاور رینج روورز میں تحریکی فنڈ سے گھوم پھر کر زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ یہ لوگ جہاں جائیں، دنیا بھر کی سیر کریں، انکا ٹکٹ تحریک میں دئیے گئے زکوٰة و صدقات کے پیسوں سے ادا ہوتا ہے۔
بھائیو ! یہ لگژری اور پروٹوکول ہی ان لوگوں کا انقلاب ہے اس مرکزی قیادت نے گوادر سٹی پراجیکٹ کے نام پر کارکنوں اور انقلاب پر یقین رکھنے والے سادہ لوح عوام کو جی بھر کر لوٹا ، 85 لاکھ تک کا ایک ایک پلاٹ بیچا اور اس گنگا میں مرکزی قیادت نے خوب ہاتھ دھوئے۔ اب یہ لوگ بھی کروڑ پتی ہیں، غریب اور متوسط لوگوں کے ترجمان نہیں رہے اور نہ ہی انہیں انقلاب کی ضرورت ہے جو ان سے ایسی توقع لگائے بیٹھے ہیں وہ پچھتائیں گے ۔ ترکی میں انقلاب کی جنگ لڑنے والے شیخ بدیع الزامان نورسی کی انقلابی جدوجہد کا مطالعہ کریں تو انکے یہ تاریخی جملے جو انہوں نے فوجی عدالت میں کورٹ مارشل کے دوران کہے کہ ” حق کی راہ پر چلنے والے مردان حق کبھی ظلم نہیں کرتے اور اگر ان پر ظلم کرنے کا جھوٹا الزام لگ جائے تو ڈرتے بھی نہیں ” انقلاب کا نام لینے والی قیادت کیلئے مشعلِ راہ ہیں۔
شیخ بدیع الزمان نورسی نے کہا کہ ظالم حکومت کے دور میں جیل رہنے کی بہترین جگہ ہوتی ہے ۔ تاریخِ انسانی کے کسی بھی قائد کی زندگی کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں ہر جگہ آپکو یہی جھلکیاں نظرآئیں گی اور آپ بھی بے ساختہ بول اٹھیں گے کہ مردانِ حق ظلم نہیں کرتے اور الزام لگ جائے تو ڈرتے بھی نہیں۔ ترکی کا وزیراعظم طیب اردگان ایسے ہی مردانِ حق کا مشن لیکر نکلا اور جس جرات سے اس نے سنگین حالات اور عالمی استعماری ، استحصالی اور طاغوتی طاقتوں کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اس کی زمانہ حال میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی اور صاحبانِ نظر اسکے کام، بصیرت اور مستقل مزاجی کو سلام پیش کرتے ہیں ۔ اب حق گوئی کا تقاضا یہ ہے کہ میں برملا اس بات کا بھی اقرار کروں کہ کسی وقت میں منہاج القرآن اور اسکی قیادت میں بھی ایسی جھلک نظر آتی تھی اور وہ خود بھی یہ کہتے تھے کہ “میں باطل طاغوتی ، استحصالی، سامراجی اور منافقانہ طاقتوں سے دیوانہ وار لڑوں گا۔ ” لیکن اب حالات کیا ہیں سوچنے والوں کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔
تحریر : شاہد جنجوعہ