تحریر: شاہ بانو میر
مصر کا بازار اور اس کے بعد یورپی اور امریکی، منڈیوں کا سنا تھا پڑھا تھا کہ زمانہ جاہلیت میں وہاں غلاموں کی خرید و فروخت کی جاتی تھی اور غلاموں کا معائنہ ایسے خریدار کرتے تھے گویا جانور ہوں پھر اتفاق ہوا حضرت یوسف کی ایک تاریخی فلم کو دیکھنے کا تو اس میں عزیز مصر غلاموں میں کھڑے یوسف کو جب پسندیدہ نظروں سے دیکھتا ہے تو اس کے کارندے لپک کر ان کے پاس جاتے اور ان کے ڈیل ڈول کو ہر زاویے سے دیکھتے انسانیت کی اس ہوئی تذلیل پر یہ سوچ کر صبر آجاتا ہے کہ اس وقت جاہلیت تھی تعلیم نہیں تھی ذہنوں پر یا تو ملکیت کا تصور تھا یا پھر غلامی کا لہٰذا ان پر کیا کڑھنا اللہ اکبر ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا یہ بازار مصر کا نیا منظر تھا۔
نوجوان لڑکے ہیں اور کئی لڑکیاں با حجاب بازار میں زمین پر بیٹھی دکھائی دے رہی ہیں ایک طویل زنجیر سے منسلک ہتھکڑیاں پہنا کر بٹھایا گیا ہے ان کے وجود برقعہ نما لبادے میں چھپے ہوئے ہیں مگر چہرے کا نقاب اس انداز میں ہے کہ ماتھے سے رنگت کی سفیدی اور آنکھوں کی خوبصورتی ہر لڑکی نمایاں ہو رہی تھی تا کہ خریدار کو تسلی ہو کہ لڑکی خوبصورت ہے ایک نوجوان لڑکا بندوق تھامے ہوئے دائیں جانب بیٹھی ہوئی لڑکی سے بولی کاآغاز کرتا ہے اس کا نام اور اسکی شہریت بتا کر اس کی ذات کے بارے میں ایسے جملے بول کر اس کی قیمت کا تعین کروا رہا ہے کہ انسانیت کانپ جائے یہ ہر گز اسلام نہیں ہے یہ سب اسلام کو دنیا کے سامنے بدنام کرنے کیلئے جھوٹ پیش کیا جا رہا ہے۔
تا کہ پوری دنیا میں رہنے والے اس روپ میں مسلمانوں کو دیکھ کر ان سے کراہت محسوس کریں انہیں ظالم درندہ سمجھیں اور ان کے ساتھ سماجی معاشرتی سیاسی مذہبی روابط منقطع کر دیں اسلام کی نفاست ملائمت مضبوط نظام انصاف ضابطہ حیات ان سب کی شدت سے نفی کرتا ہے اسی وڈیو میں مزید آگے دیکھیں تو ہم سنتے ہیں؟ خریدار لڑکی کے بارے میں جو سوال کر رہے ہیں ان کو سننا انسانیت کوگوارہ نہیں ہو سکتا 50 ڈالرز سے شروع ہونے والی یہ بولی 70 65 ڈالرز سے آگے نہیں گئی اور منٹوں میں عام سستی سبزی کی طرح قطار در قطار بیٹھی وہ لڑکیاں خریدنے والوں کو تھما دی گئیں اور یوں وہ سڑک جہاں غیر ملکی سیاحوں کو بآسانی دیکھ جا سکتا ہے وہ اس تماشے کے بعد بالکل ویسے ہی خالی ہوگئی۔
جیسے بندر کا بھالو کا تماشہ دکھانے والا منتخب کردہ کرتب دکھاتا ہے اور تماشہ ختم ہونے پر کھڑے تماش بینوں سے داد وصول کرتا ہے پیسون کی صورت اور دوکان بڑھا لے جاتا ہے تماش بین تٍتر بتر ہو جاتے داعش کا نام لینے والے یہ نوجوان اور یہ لڑکیاں کیا ایک گروہ کی صورت کوئی ڈرامہ تو نہیں کر رہے تھے ؟ ایسا انسانیت سوز تماشہ انسانیت مر جائے تو ہو سکتا ہے وہ بھی اسلام کے نام پر ؟ اس دور میں یہ کونسا ملک ہے کونسا شہر ہے؟ جہاں خریدو فروخت اس ظالمانہ انداز میں کھلم کھلا اتنی سستی بیچی جا رہی ہے بنت حوا گویا سستی ترکاری سبزی مردوں کے ہجوم میں بیٹھی یہ لڑکیاں ویسے ہی معیوب لگ رہی ہیں اس پے طرہ ان لڑکوں کا اتنا
بے باکانہ نیلامی کیلئے بولی کا لگانا۔
اللہ اکبر داعش سے تعلق رکھنے والے یہ لڑکے گاہے بگاہے تکبیر اور جواب میں ساتھی اللہ اکبر کا جواب بھی دے رہے تھے ایسے عجیب و غریب واقعات اس دنیا میں ہو رہے ہیں کہ ہر کسی چیز کو دیکھ کر پہلے غیر یقینی اور اس کے بعد اس کی تصدیق ہوتے ہی یقین کرنا پڑتا ہے ہماری ایک مقدس ماں کے نام کی ایک لڑکی کو جب بار بار پکارا جا رہا تھا بتایا جا رہا تھا بطور مسلمان جو بھی سنے گا اسکا خون کھولے گا یا تو یہ کسی اسلام دشمن کی جانب سے اسلام کی بدنامی کیلئے تیار کیا گیا ڈرامہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
یا پھر دہشت گردی اور پھیلتی ہوئی یہ جنگ ہتھیاروں سے نکل کر عام شہری تک پہنچائی جا رہی ہے تا کہ ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی دباؤ ڈال کر مسلمان نوجوانوں کو بھڑکا کربد امنی کا دور دورہ شروع کیا جائے؟ اس کا منطقی انجام کیا ہوگا؟ مصر کا بازار تو مشہور تھا لیکن یہ کونسا بازار ہے اور یہ کونا کس لئے چنا گیا اسکی سمجھ نہیں آسکی کیا اپنے بہیمانہ عزائم کیلئے چند چند ٹکوں میں عورت کو بیچا جائے گا؟ اسلام کا نام تکبیر کا نعرہ مقدس خواتین کے ناموں سے پکاری جانے والی یہ لڑکیاں کون ہیں اور کہاں گئیں ؟ انتہائی نازک موڑ پر دہشت گردی کا پھیلاؤ عورت کی تضحیک اس سے پہلے ایسے نگاہوں سے گزری نہیں تھی بے بس قفس میں مبحوس عورت کی مجبوری سمجھ آتی ہے۔
جو کسی بھی آزمائش کا شکار ہو کرقفس سے نکلنے کیلئے ہر داؤ پیچ آزماتی ہے کبھی ہنستی ہے تو کبھی روتی ہے مگر یہاں تمام کی تمام لڑکیاں پرسکون تھیں یہی انداز ابہام بڑھا رہا ہے گولی کے ڈر سے زباں بندی تو ہو سکتی ہے مگر بے بسی کے آنسو اپنی اتنی تذلیل پر بہنے پر کوئی گولی سے سر عام مار نہیں سکتا کسی لڑکی نے ایک آنسو نہیں بہایا ؟ کیا یہ طے شدہ ڈرامہ ہے ؟امت مسلمہ کو بھڑکانے اور مشتعل ہو کر کوئی قدم اٹھانے پر مجبور کرنے کیلئے؟۔
امت مسلمہ خود کو دور دور رکھنے اور سب اچھا کہ کر اپنے آپ کو بچانے والے یاد رکھیں اب وہ دور شروع ہوگیا جب شعور کیلئے اور ماحول کیلئے ہر بہتر عمل ہم نے مل کر کرنا ہے ورنہ یہ بے تحاشہ بے تکی ہر سمت پھیلتی ہوئی دہشت گردی کبھی ہم میں سے کسی کے آنگن تک لپٹیں لا سکتی ہے اس دہشت گردی کی .مصر کے بازار کا یہ جدید نمونہ آپ سوشل میڈیا پر بآسانی دیکھ سکتے ہیں اس دور میں ایسی اہانت جو معلومات ایک واقعہ نے دیں وہ آپکو فراہم کر دیں نجانے اس قسم کے اور کتنے خوفناک وحشتناک واقعات اس روئے زمین پر انسانیت کو رلا رہے ہیں تڑپا رہے ہیں ؟ سوچیئے اور دیکھئے مصر کا بازار۔
تحریر: شاہ بانو میر