پاکستان میں ’رشتہ کرنے‘، ’رشتے سے انکار‘ یا’ پسند کی شادی‘ پر نوعمر لڑکیوں اور خواتین کو ’غیرت کے نام پر قتل‘ کرنے کا رجحان اس قدر زیادہ ہوگیا ہے کہ صرف 9 ماہ میں 280 خواتین کو قتل کر دیا گیا۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم (ایچ آر سی پی) کے مطابق، نو ماہ پہلے یعنی اکتوبر 2016ء میں ہی پاکستان میں خواتین کو ’غیرت کے نام پر قتل‘ کرنے کے خلاف نیا قانون منظور ہوا تھا۔ لیکن، یہ قانون اب تک اس قدر بے اثر ثابت ہوا ہے کہ اکتوبر 2016ء سے جون 2017ء تک کی 9 ماہ کی درمیانی مدت میں 280 خواتین کو قتل کر دیا گیا۔
یہ تعداد ان کیسیز کی ہے جو اس دوران رپورٹ ہوئے، جبکہ معاشرتی روایات یہ رہی ہیں کہ کبھی بدنامی کے خوف سے اور کہیں پنچایت یا جرگے کے ڈر سے کتنے ہی والدین غیرت کے نام پر قتل ہونے والے واقعات کو حیلے بہانوں سے چھپا جاتے ہیں اور پولیس تک ان کی بھنک بھی نہیں پہنچ پاتی۔ اس لئے اس بات کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ پچھلے 9 ماہ میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کی تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ نئے قانون میں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کے لئے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں، جبکہ ایسے جرائم کا نشانہ بننے والوں کے ورثا کا مجرم کو معافی دینے کا اختیار بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
اس قانون سازی سے قبل قتل کی جانے والی خواتین کے ورثا عموماً قاتل کو معاف کر دیتے تھے کیوں کہ قتل کرنے والوں کا تعلق بھی اکثر متاثرہ خاندان سے ہی ہوتا تھا۔ لیکن، اس کے باوجود ’غیرت کے نام پر قتل‘ کے واقعات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس سلسلے کو بڑھاوا دینے میں جرگے اور پنچایت کے عجیب و غریب اور غیر منصفانہ فیصلے بھی جلی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال پچھلے مہینے ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش آنے والا یہ واقعہ ہے جس میں مٹ کے علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک 16 سالہ لڑکی کو برہنہ کرکے ناصرف سر عام گھمایا گیا بلکہ اسے بے آبرو بھی کیا گیا۔
اس لڑکی کا ’قصور‘ صرف اتنا تھا کہ اس کے بھائی کے گاؤں کی ایک لڑکی سے تعلقات تھےجن کے خلاف پنچایت میں شکایت کی گئی۔ پنچایت نے ڈھائی لاکھ روپے جرمانہ کی ادائیگی پر معاملہ رفع دفع کر دیا۔ لیکن، مخالفین کے جذبات اس فیصلے پر ٹھنڈے نہیں ہوئے اور انہوں نے لڑکے کے قصور کا بدلہ اس کی 16سالہ بہن سے لیا۔
اس واقعہ کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ واقعے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور ایف آئی آر میں نامزد 9 ملزمان میں سے 8 کو گرفتار کرلیا گیا۔ تاہم، مرکزی ملزم سجاول ابھی تک مفرور ہے۔
متاثرہ لڑکی زندہ بچ گئی، اسے لڑکی کے والدین ’غنیمت‘ قرار دے رہے ہیں کیوں کہ اکثر و بیشتر واقعات میں خواتین اور لڑکیاں بدلے کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لئے غیرت کا بہانے پر سازش کرکے قتل کردی جاتی ہیں۔
یہ واقعہ اس بات کا بھی واضح ثبوت ہے کہ پاکستان میں فرسودہ سوچیں بھی ابھی ’زندہ‘ ہیں یہی وجہ ہے کہ رشتہ داروں کے ہاتھوں ہی خواتین کو پسند کی شادی یا محض کسی مرد سے تعلق کے شبہے میں ’غیرت‘ کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے۔
رہی سہی کسر اس نوعیت کے مقدمات کو جلد نہ نمٹائے جانے کے سبب مجرموں کو شہ ملتی رہتی ہے۔ جیسے سوشل میڈیا سے شہرت پانے والی ماڈل قندیل بلوچ کے ساتھ ہوا۔ وہ بھی گزشتہ سال جولائی میں غیرت کے نام پر قتل ہوئی تھی۔ لیکن، ایک سال سے زیادہ مدت گزر جانے کے باوجود کیس کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔
اسی نوعیت دو معاملات پچھلے ماہ سرگودھا میں بھی پیش آئے۔ استقلال آباد کی آسی کالونی میں غیرت کے نام پر جوان لڑکی کو قتل کر دیا گیا جبکہ دوسرے واقعے میں غیرت کے نام پر بیٹے نے سوتیلی ماں کو قتل کر دیا کیوں کہ ملزم اپنے والد کی دوسری شادی سے ناخوش تھا۔
حقوقِ نسواں کمیشن، پنجاب کی چیئرپرسن فوزیہ وقار کا کہنا ہے ’’قانون سازی کے باوجود غیرت کے نام پر قتل کی سب سے بڑی وجہ معاشرے میں عورتوں کے حقوق کو تسلیم نہ کرنا ہے۔‘‘