تحریر: مہر بشارت صدیقی
نفسیات کے ماہرین اس بات کے قائل ھیں کہ تفریح انسان کا فطری تقاضا ہے جس کا پورا کرنا نہایت ضروری ہے ۔دین اسلام نے بھی اس مسئلہ کو خاص اہمیت دی ہے اور مفید تفریحوں کی سمت لوگوں کی رہنمائی کی ہے، خطر ناک تفریحوں سے منع بھی کیاہے۔ تفریحوں کے سلسلے میں ان تفریحوں کو اختیارکیا جائے جن سے روحانی اور فکری صلاحیتوں میں اضافہ ہو۔کھیل بھی ایک مفید تفریح ہے اور سفر کی طرح تر و تازگی کا سبب بنتاہے۔ صحت و تندرستی میں کافی موثر ہے۔ چونکہ اس سے بدن تندرست رھتا ہے لھذا روح کی سلامتی کے لئے بھی معین و مددگار ہے۔ظاھر ہے کہ انسان کی سعادت اس کے جسم اور روح کی سلامتی سے براہ راست متعلق ہے۔
کھیل کی اہمیت اس بنا پر ہے کہ اس سے جسم صحیح و سالم رھتا ہے اور روح کی ارادی قوت میں اضافہ ھوتا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ میدان جنگ میں وہی جوان مردانہ ہمتوں کے ساتھ ثابت قدم رہ سکتا ہے جس کے ایمان کے ساتھ ساتھ اس کا جسم بھی طاقتورہو۔ ضعیف اور کمزور افراد نہ صرف میدان جنگ میں ثابت قدم نھیں رہ سکتے بلکہ وہ زندگی کے میدان میں بھی شکست کھا جاتے ھیں، البتہ انسان کوایسے کھیلوں میں مصروف ھونا چاھئے جھاں اخلاقی اور انسانی اقدار مجروح نہ ھوتے ہوں۔
صحتمند قوم ہی دراصل مثبت اور صحتمند رجحانات کی حامل ہوتی ہے، اسپورٹس کی سرگرمیاں نوجوانوں کی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو فعال کردیتی ہیں، انہیں وقت کی قدر و قیمت کا احساس دلاتی ہیں اور ان میں ہمت و استقامت پیدا کرتی ہیں کہ وہ پُر عزم ہوکر حریف ٹیموں سے بغیر کسی دبائو اور خوف کے مقابلہ کریں اور کامیابی حاصل کریں، صرف طاقت اور جذبہ ہی نہیں بلکہ اچھے نتائج حاصل کرنے کے لیے درست سمت میں کوششیں بہت ضروری ہیں۔ اسپورٹس، صرف ٹیم اسپرٹ کو ہی فروغ نہیں دیتا بلکہ مل جل کر ہدف حاصل کرنے کی تربیت بھی دیتا ہے جو صحتمند معاشرے کے لیے ایک ضروری عنصرہے اور معاشرے میں صحتمند رجحانات کوفروغ دینے میں بھی اہم و موثر کردار ادا کرتا ہے۔
نوجوانوں کی تربیت اور ان کی جسمانی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں اسپورٹس ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، اسپورٹس انہیں اپنی تونائی مثبت انداز سے استعمال کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اسپورٹس سرگرمیوں سے طلباء میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے، اتحاد اور بھائی چارہ کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اسپورٹس وقت کی اہمیت اور قدر کا احساس دلانے کے علاوہ صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ اسپورٹس مقابلوں میں ایک ایک لمحہ بڑا اہم ہوتا ہے۔ میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی جو نوجوانوں کو تفریح کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔محمد عرفان خان جو کہ گزشتہ طویل عرصہ سے مارشل آرٹس سے تعلق رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے اپنی زندگی میں اب تک مارشل آرٹس کے مختلف اسٹائلز میں دنیا کے ورلڈ کلاس ماسٹر زسے مہارت ٹریننگ حاصل کرکے پاکستان میںبڑی تعداد میں انسٹیٹیوٹس قائم کررکھے ہیں۔ جن میں مارشل آرٹس کے ہزارون طلباء و طالبات ان کے تجربات سے مستفید ہورہے ہیں۔ کیوکیشن کراٹے، کک باکسنگ، ووشو ، تائیکوانڈو اور بے شمار اسٹائل جن میں آپ قومی و بین الاقوامی اعزازات حاصل کرچکے ہیں اور اپنے سٹوڈنٹس کو بھی آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتے رہتے ہیں ۔ محمد عرفان خان جو کہ نیشنل چیمپین اور انٹرنیشنل ورلڈ کلاس پلیئر بھی رہ چکے ہیں۔(پاکستان کا نام روشن کرنے کیلئے مختلف ممالک میں ایک کھلاڑی کے طور پر بھی کھیل چکے ہیں۔ اس وقت گزشتہ کچھ عرصہ سے مارشل آرٹس میں بیرون ملک جانے والے مختلف کھلاڑیوں کی کوچنگ اورنمائندگی کرچکے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے متعدد بار نیشنل کوچ بھی منتخب ہو چکے ہیں۔
امریکہ ، جاپان،جرمنی، اٹلی،کینڈا اور چائنہ ودیگر ممالک کے گرینڈ ماسٹر ز کے ساتھ مل کر پاکستان میں مارشل آرٹس کی ترقی و ترویج کیلئے جدوجہد میں مصروف ہیں۔ امریکہ سے چیمپین گولڈ ایوارڈ یافتہ ہیں۔محمد عرفان خان دنیا کے کم عمر ترین بلیک بیلٹ 5thڈان ہیں۔پریزیڈینشل ایوارڈ ہولڈر (امریکہ )،سپورٹس ایکسیلنس ایوارڈ حکومت پنجاب وزارت کھیل ،بلیک بیلٹ 5thڈگری اٹلی، جرمنی، جاپان، تھائی لینڈ،واگھان، کنگ فو، چائنا اور سامورائی انسٹرکٹر ،اینٹی ٹیرورسٹ سپورٹس،سیکرٹری اوریجنل انٹرنیشنل مارشل آرٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان ،چیئرمین اینڈ سیکرٹری اوریجنل وے آف مارشل آرٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان ،سیکرٹری جنرل لاہور کیوکیشن کان ایسوسی ایشن ،وائس پریزیڈنٹ پاکستان کک باکسنگ فیڈریشن ،ایگزیکٹو ایڈیٹر ماہانہ سپورٹس، رگارڈنیوز، ماہانہ رسالہ ،کراٹے انسٹرکٹر ،پنجاب یونیورسٹی،مارشل آرٹس سینٹر لاہور ،برانچ چیف آف پاکستان مارشل آرٹس ایسوسی ایشن انٹرنیشنل (جرمنی) ایوارڈ وصول کر چکے ہیں۔سابق صوبائی وزیر کھیل سردار نعیم اللہ خان شہانی نے محمد عرفان خان کو ان کی کوششوں اور کاوشوں کو سراہتے ہوئے 2004ء میں سپورٹس ایکسیلنس ایوارڈ سے نوازا۔سابق وزیر تعلیم میاں عمران مسعود نے تعلیمی اداروں میں مارشل آرٹس کی ترقی و ترویج کے صلہ میں ایکسیلنس ایوارڈ بھی دے چکے ہیںاور محسن لطیف کھوسہ سے بھی خصوصی ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔
محمد عرفان خان کہتے ہیں کہ میرے بہترین اساتذہ کرام میں طارق نسیم ، تنویر اکبر و محمد سلطان خان، ارشد جان صاحب (مرحوم) و انعام اللہ خان جیسے بہترین اساتذہ ہیں جو کہ اب تک اپنی کاوشوں میں مصروف ہیں اور سرپرستی بھی کررہے ہیں۔ محمد عرفان خان نے اپنی کوششوں سے بہت سے گرینڈ ماسٹرز اور انسٹرکٹر ز کو ساتھ ملایا اور تنظیمی شکل میں چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان سے ایک سوال پوچھا گیا کہ مارشل آرٹس کا انسانی صحت پر کیا اثر ہوتا ہے تو انہوں نے جواب میں مختصر اً بتایا کہ مارشل آرٹس کا انسانی صحت پر مثبت اثرہوتا ہے ۔ یہ زندگی میں نظم و ضبط پیدا کرتا ہے اور معاشرے سے بہت سی برائیاں دورہوتی ہیں۔
ایک صحت مند معاشرہ تخلیق ہوتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں آنے والی نسلیں صحت مند اور بیماریوں سے پاک پیدا ہوتی ہیں۔بیرون ممالک یونیورسٹیز میں مارشل سائنسز کے نام پر کورسز کروائے جاتے ہیں اور مارشل سائنسز میںP.HD.,M.Sc.BS.c.لیول تک کورسز کروائے جاتے ہیں جو کہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اس میدان میں پیچھے ہیں۔انہوں نے گورنمنٹ آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ مارشل سائنسز میں بھی کوئی قدم اٹھائے تاکہ ہماری ویلیو ترقی پذیر ممالک میں بہتر ہوسکے ہم اس لحاظ سے بہت پیچھے ہیں۔ اور قائد اعظم اور علامہ اقبال کے فرمودات کی روشنی میں پایا تکمیل تک اور ہماری گزارش حکومت پاکستان سے یہ ہے کہ مارشل آرٹس کو گراس روٹ یعنی بنیادی طور پر تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ ہم بحیثیت قوم اپنے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔
دنیا کے مختلف ممالک میں میٹرک کیلئے مشروط کر دیا گیا کہ بلیک بیلٹ ہولڈر ہونا ضروری ہے ۔جبکہ ہماری قوم کے معماروں کو بے یار ومددگار چھوڑنا دانشمندی نہیں ہے۔ ہماری عوام ایسے کورسز کرنا چاہتی ہے مگر گورنمنٹ سے کوئی سپورٹ نہیں کہ وہ آگے بڑھ سکیں۔ اسی لیے ان کوششوں کو پایا تکمیل تک پہنچانے کیلئے انہوں نے اپنی پوری ٹیم کے ساتھ مل کر مارشل آرٹس کوا یک منظم انداز میں تشکیل دیا ۔ جس کا نام اوریجنل وے آف مارشل آرٹس ایسوسی ایشن پاکستان ہے۔ محمد عرفان خان جس کے موجد اور چیئرمین ہیں۔انکامقصد صرف اور صرف پاکستان میں مارشل آرٹس کی ترقی و ترویج کے حصول کیلئے جدوجہد کرنا ہے اور ہر پاکستانی کو اس جیسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے۔
تحریر: مہر بشارت صدیقی