تحریر : عبدالرزاق
دکھ کی بات تو یہ ہے کہ پاکستانی عوام بھی عجب تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہے ۔کبھی جمہوریت کے پودے کی حفاظت کی خاطر خون کے دریا بہا دیتی ہے اور کبھی آمریت کو گلے لگانے میں ہی عافیت سمجھتی ہے۔ یہ پاکستانی قوم کے لیے بڑا تکلیف دہ منظر ہوتا ہے جب ان کی بے پناہ قربانیوں کے طفیل جمہوریت پروان چڑھتی ہے لیکن حریص سیاست دانوں کی کرپشن کی وجہ سے جمہوریت کے پودے پر آمریت کے سیاہ بادل منڈلانا شروع کر دیتے ہیں ۔معیشت کو نقب لگانے والے سیاسی چور سر عام سرکاری خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہوں تو عوام کا بے چین ہونا فطری عمل ہے ۔غور طلب بات تو یہ ہے کہ جمہوریت اور آمریت کے اس ہوش اڑا دینے والے کھیل میں نقصان میں کون رہا۔
جڑیں کس کی کھوکھلی ہوئیں ۔ جمہوری حکمران تو دولت کے ڈھیر سمیٹ کر راحت و سکون کے شہر میں مقیم ہو گئے اور آمر بھی اپنے عہد حکومت کی لذتوں سے مخمور ہو کر پر لطف وادیوں میں کہیں گم ہو گئے لیکن عوام کدھر ہیں ۔ ان کے ساتھ کیا گزری ۔ یہ احساس ڈھونڈنے سے بھی میسر نہیں ہے۔
جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل مشرف تک اور ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر موجودہ وزیر اعظم نواز شریف تک ذاتی مفادات کی ایسی جنگ و جدل دیکھنے کو ملی کہ وطن عزیز کی تقدیر کا رخ ہی تبدیل ہو گیا ۔ایک وقت تھا جب ریاست پاکستان اور اس کے حکمرانوں کی بین الاقوامی فورم پر مسلمہ حیثیت تھی ۔پوری دنیا ملک خدادداد پاکستان کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی تھی ۔پھر ساٹھ کی دہائی کے بعد اقتدار کی رسہ کشی کا ایسا گھناونا کھیل شروع ہوا کہ پاکستانی معیشت جو ان دنوں روبہ ترقی تھی تنزلی کا شکار ہو گئی اور آہستہ آہستہ پاکستانی حکمرانوں کے وقار کی بھی دھجیاں بکھرتی چلی گئیں۔
ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا کے باہمی ٹکراو کے نتیجہ میں پورے ملک کی فضا ایسی مکدر ہوئی کہ نفرتوں کا یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک دراز ہو گیا ۔نفرت کے اس کھیل میں کھلاڑی بدلتے رہے مگر منظر ایک ہی رہا ۔بھٹو کی جگہ ان کی بیٹی بے نظیر نے لے لی اور ضیا کی نشست نواز شریف نے سنبھال لی ۔ ان دونوں کے درمیان اقتدار کی جنگ کاطویل دورانیہ ملکی معیشت کی بد حالی کا پیش خیمہ ثابت ہوا ۔ دونوں ہی باری باری بر سر اقتدار آتے رہے اور ایک دوسرے کو ہزیمت کا شکار کرنے کے لیے ایسے منصوبے ترتیب دیتے رہے جو ان کے حواریوں کی خوشحالی کا باعث تو بنے لیکن ملکی ترقی میں رتی بھر اضافہ دیکھنے کو نہ ملا۔
البتہ میاں نواز شریف ایٹمی دھماکے کر کے بے نظیر پر برتری حاصل کر گئے ۔دونوں مذکورہ حکمرانوں کی حکومتیں کرپشن الزامات پر بر طرف ہوئیں اور عوام نے بھی آمروں کو خوش آمدید کہا ۔عوام نے بظاہر یہی تاثر دیا کہ وہ جمہوریت کی بساط لپیٹنے کے عمل سے خوش ہیں لیکن جب فوجی حکمرانوں نے مسند اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہو کر اپنی پالیسیاں نافذ کرنا شروع کیں تو عوام بے چین ہو کر جمہوری حکمرانوں کو یاد کرنے لگ گئے۔اور سیاست دانوں کے سنگ فوجی اقتدار سے چھٹکارہ پانے کے لیے جدو جہد میں مصروف ہو گئے۔
لاٹھیوں کی برسات میں اور جیل کی ہوا کھانے کے باوجود یہ سیاسی جیالے،متوالے اور پروانے اپنے اپنے لیڈر وں کے ہمراہ جمہوریت زندہ باد کے نعروں پر جھومتے دکھائی دئیے ۔اور پھر جب ان کی کوششیں رنگ لاتیں اور آمر حکومت سے علیحدہ ہونے پر مجبور ہو جاتے تو عوام سول حکمران کا والہانہ استقبال کرتے اور جب یہ حکمران ملکی اداروں میں کرپشن کی دل دہلا دینے والی داستانیں رقم کرتے تو عوام انگشت بدنداں کی عملی تصویر بن کر ان سے چھٹکارے کے لیے سراپا دعا بن جاتے ۔اور بعض طبقات تو اس قدر بے چین ہو جاتے کہ فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دے ڈالتے ۔اس قسم کی صورتحال ان دنوں بھی وقوع پذیر ہے۔
کچھ دنوں سے یہ منظر عوامی نگاہوں کے سامنے رقص کناں ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت پاکستان کے دیگر اہم شہروں میں ایسے بینرز آویزاں ہیں جس پر فوج کو اقتدار سنبھالنے کا دعوت نامہ درج ہے ۔پاکستانی قوم جو جذباتی اعتبار سے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی اس بات کو یکسر فراموش کر دیتی ہے کہ انہوں نے جمہوریت کا پودا کن نامساعد حالات میں لگایا تھا ۔علاوہ ازیں یہ ہماری قومی بد قسمتی ہے کہ ہم آج تک جمہوریت کے حقیقی ثمرات حاصل کرنے میں ناکام ہیں ۔دولت کے رسیا حکمرانوں نے عوامی رائے کے ساتھ ایسے ایسے کھلواڑ کیے جن کی مثال پوری دنیا میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ۔موجودہ حکومت کو بینرز کے معاملہ کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے اور اپنی صفوں میں ایسی کالی بھیڑوں کو تلاش کر کے علیحدہ کر دینا چاہیے جن کی وجہ سے آج یہ بینرز آویزاں دکھائی دیتے ہیں۔
ناقص طرز حکمرانی اور حکومتی غلطیوں ،کوتاہیوں پر قابو پا کر بہتر کارکردگی کا ٹیگ اپنے ماتھے پر سجانا چاہیے تاکہ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھا سکے اور اس نوع کے بینرز کے آویزاں ہونے کا بھی خاتمہ ہو سکے ۔ اگر نواز حکومت نے فی الفور اپنی کوتاہیوں پر قابو نہ پایا اور روائیتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تو ممکن ہے یہ بینرز ملک کے کونے کونے اور ہر گلی محلے کی زینت بن جائیں ۔اس سے پہلے کہ حکومت کو اس قسم کا چیلنج درپیش ہو اور جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق ہو حکومت کو اپنے طرز حکمرانی کو مثالی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے چاہییں تا کہ ان عناصر کو سر اٹھانے کا موقع نہ ملے جو جمہوریت کے راستہ میں کانٹے بچھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اگر نواز حکومت نے جمہوری پودے کی حفاظت کے لیے دور رس نتائج کے حامل اقدامات نہ کیے تو خدشہ ہے کہ محرومیوں اور بد حالی کا شکار طبقہ بہت جلد ایسے ہاتھوں کا کھلونا بن سکتا ہے جن کی نظر جمہوریت کے پودے کو اکھاڑنے پر مرکوز ہے ۔میاں نواز شریف کو حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوے فوج سے تعلقات کو مذید بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ یہ تاثر جو ابھر کر سامنے آ رہا ہے کہ فوج اور حکومت کے بیچ اختلافات کی خلیج حائل ہو چکی ہے زائل ہو سکے۔
میری دانست میں جنرل راحیل شریف جو ملکی تاریخ کے سب سے مقبول آرمی چیف ہیں اپنا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں رکھتے اس لیے مارشل لا کے امکانات تو معدوم ہیں لیکن حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ تمام ایشوز جن پر فوج متفکر ہے یا تحفظات کا شکار ہے ۔ ایسے امور کو فی الفور احسن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرے کیونکہ جب تک فوج اور حکومت ایک پیج پر نہ ہوں ملکی ترقی و خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
تحریر : عبدالرزاق