تحریر : علی عمران شاہین
11فروری، بھارت کے لئے 1984سے اب تک ایسا دن جو اسے مسلسل اذیت ہی دیتا ہے۔یہ وہ دن تھا جب بھارت نے آزادی چاہنے والے کشمیری جوان مقبول بٹ کو سولی پر لٹکایا تھا کہ کشمیری قوم ڈر کر دب جائے لیکن یہ پھانسی تو کشمیری قوم کے لئے ایک شعلہ جوالہ بن گئی ۔پھانسی کے بعد کشمیری قوم نے مقبول بٹ کو بابائے قوم قرار دے کر آزادی کے لئے ایسی تحریک بپا کی کہ الٹا بھارت 28سال سے سولی پر لٹکا ہوا ہے۔سارا عالم اس کے ساتھ ہے لیکن کشمیری قوم کے تو حوصلے پست کرنے میں بھی نا مراد ہے ۔الٹااپنی قوم کے حوصلے بلند کرنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلتا ہے ،اس کا مشاہدہ کرنا ہو تو بھارتی بالی ووڈ کی تازہ ترین فلم ”بے بی ”کا ایک سین ملاحظہ کیجیے۔ ”پائلٹس، Merceneries (جانباز)، پیراٹروپرز (ہوا باز) اینڈ وٹ ناٹ، نائن الیون سے لے کر فدائین اٹیک کے ہر طرح کے اٹیکس کر سکتے ہیں۔ اجے” ”سر ہمارا ایک سابق آفیسر تھا ،جمال، جس نے مجھے وارن کیا تھا کہ اس سال بہت ساری دیوالی ہونے والی ہے۔ جماعة الدعوة ایک فورٹ نائٹلی (پندرہ روزہ) میگزین پبلش کرتی ہے، بچوں کیلئے، ننھے مجاہد، پاکستان نے اسے بین کیا ہوا ہے۔ ہمیں آج ہی پتہ چلا ہے کہ ننھے مجاہد کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ It will be an independent militant wing (یہ ایک آزاد مسلح جتھہ ہو گا)”
یہ فلم بھاری سرمایہ خرچ کر کے کئی ملکوں میں بنائی گئی ہے جو 23جنوری 2015ء کو نمائش کیلئے پیش ہوئی لیکن پاکستان میں اسے آنے سے پہلے ہی بین کر دیا گیا… کیوں؟ کیا اس لئے کہ اس میں پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ ہے؟پاکستانی سکیورٹی اداروں کو نشانہ بنایا گیا ہے…؟ جی ہاں! آپ بھی یہی کہیں گے کہ ”بالکل نہیں” کیوں کہ بھارت کی ہر دوسری تیسری فلم تو پاکستان کے خلاف ہوتی ہے جس میں پاکستان کو کسی نہ کسی طرح سے دہشت گرد ثابت کیا جاتا ہے، اسے بدنام کرنے کے لئے فلم میں ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے، لیکن وہ سبھی فلمیں پاکستان میں اول دن سے بلاروک ٹوک دیکھی اور دکھائی جا رہی ہیں تو پھر… پابندی کی وجہ؟ اب یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں… اور دوسری طرف بھارت ہے کہ دن رات اپنی فلموں کے ذریعے سے ایک زمانے سے دنیا کو یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ ”دنیا میں ہم سے بڑھ کرکوئی نہیں۔ بہادری میں، ذہانت میں، جانفشانی میں، ملک سے محبت سمیت ہر میدان میں”۔ اللہ کی شان دیکھیے کہ بھارت کی جانب سے اس فلم کی نمائش کے صرف دو ہی دن بعد اسی بھارت کا وزیراعظم منتوں ترلوں سے اپنے ملک میں آنے والے امریکی صدر باراک اوباما کے سامنے یوں ”صدقے واری” جا کر پاکستان، جماعة الدعوة اور حافظ محمد سعید کے حوالے سے منتیں زاریاں کر رہا تھا۔
ایک قابل دید منظر تھا اور جیسے باراک اوباما بھارتی وزیراعظم کی کمر اور کندھوں پر بار بار ہاتھ رکھ کر اس کے ساتھ کسی ”چھوٹے بالکے” کا سلوک کرتا رہا۔ بالکل ایسے کہ جیسے امریکی صدر کو پتہ چل گیا ہے کہ بھارت نے تو دو روز پہلے ہی خود اپنے دشمنوں کے مقابلے میں اپنا نام خود ہی ”بے بی” رکھ لیا ہے تو اس کے ساتھ سلوک بھی تو وہی ہونا چاہئے یعنی ”بچوں والا”… سو مودی سے ویسا ہی سلوک ہوتا رہا اور دنیا خوب تماشا دیکھتی اور محظوظ ہوتی رہی۔ لیکن کیا کریں کہ اس میاں مٹھو اور سرکس کے بھی نہیں بلکہ کاغذی شیر کی اصلیت اس سے بھی دن رات چھپائے نہیں چھپتی… ورنہ بھارت دو کشمیری نوجوانوں کی لاشوں سے اتنا کیوں ڈرتا، کانپتا اور لرزتا کہ جنہیں اس نے سالہا سال بدترین مظالم کا نشانہ بنانے کے بعد اپنی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں ہی دفنا دیا تھا کہ یہ زندہ تھے تو اس کیلئے تباہی کا پیغام لانے والے، کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں تھے۔ اسی لئے تو فلمی ہیرو بھارت ان کی لاشیں بھی ان کے لواحقین کو دینے کو تیار نہیں۔
مقبول بٹ کی پھانسی کے بعدبھارت کے اندازے ویسے ہی فلمی ثابت ہوئے جیسے وہ خود کو دکھاتا ہے۔کشمیری قوم تو ایک طرف… مقبول بٹ کی والدہ نے ایک کے بعد ایک بیٹا آزادی کیلئے پیش کرنا شروع کر دیا۔یوں اس بہادر ماں کے چار بیٹے شہادت کی منزل پا گئے لیکن مقبول بٹ کی والدہ کے سر کو نہ جھکایا جا سکا۔ مقبول بٹ کی والدہ خوشی سے بتاتی ہیں کہ ”مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرے چار پھول شہید ہوئے۔ سب سے پہلے مقبول بٹ، پھر حبیب اللہ بٹ، پھر غلام نبی بٹ اور پھر منظور احمد بٹ۔ مقبول بٹ کی والدہ شاہ بیگم کی عمر 75سال ہو چکی ہے۔ ان کی آنکھوں میں کشمیر کی آزادی کیلئے دعائیں مانگتے تو آنسو تیرنے لگتے ہیں لیکن بھارت سے ٹکرا کر ٹکڑے ہونے والے چار جگر گوشوں کی یاد پر ہمیشہ مسکرا اٹھتی ہیں۔ بھارت واقعی ”بے بی” ثابت ہوا جو کشمیری قوم کو شکست کیا دیتا؟ ایک بڑھیا کے ہاتھوں چاروں شانے چت ہو گیا۔ 31سال پہلے شہید مقبول بٹ کی پھندے پر جھولتی لاش سے بھی بھارت اس قدر خوفزدہ تھا کہ اسے جیل میں دفنانے پر مجبور ہوا اور اس کی لاش کے خوف سے آج تک بھی اس کے اعصاب اس فلمی ہیرو کی طرح شل ہیں کہ وہ اسے جیل کے ہزاروں پہروں سے باہر نکالنے کو تیار نہیں۔
بھارت کی جنگ شہید مقبول بٹ کی ایک لاش سے 1984ء سے جاری تھی کہ اس نے 2سال پہلے 9فروری 2013ء کو ایک اور کشمیری ڈاکٹر افضل گورو کو پھانسی پر لٹکا کر خود کو فاتح عالم ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن… وہ اپنے اس عمل کے بعد اپنے ہی سائے سے اس قدر خوفزدہ ہوا کہ اس کے رعشہ زدہ اعصاب نے اسے اتنی ہمت نہ دی کہ وہ افضل گورو کی لاش بھی تہاڑ جیل سے باہر نکال پاتا اور اسے اس کے پیاروں کے حوالے کر دیتا۔ قصبہ پلہالن میں افضل گورو کی والدہ، بیوہ اور اکلوتا بیٹا بغیر کوئی آنسو بہائے ”بے بی بھارت” کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیٹھے ہیں اور بھارت کو ان کے سامنے آنکھ اٹھانے کی جرأت نہیں۔ دنیا اس کی بے بسی کے تماشے فلموں میں دیکھ رہی ہے کہ کیسے اس کے فلمی ہیرو بڑی بڑی فوجوں اور ان کی ہیبت ناک قوت کو ایک ٹھوکر سے ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیتے ہیں لیکن اسی بھارت کے سارے کرتا دھرتا اور ان کا میڈیا دن رات حافظ محمد سعید کا نام لے کر روتے چلاتے ہیں۔ کتنے سال گزرے بھارتی نیتا ساری دنیا کو ”المدد، المدد” کی دہائیاں دیتے ہیں۔ ہر جگہ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ ہر ایک کے سامنے ”بے بی” بن جاتے ہیں لیکن اپنی ایک ضرب سے سارے عالم کو فتح کرنے والے ہیرو اسے یہاں کسی کام نہیں آتے۔
کشمیریو ںسے لڑنے کیلئے بھارت نے لاکھوں فورسز روانہ کیں ،ظلم کی ہر حد پار کی لیکن… اسی بھارت کی مایہ ناز فورس سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے 30ہزار جوان اور افسران تھوڑے ہی عرصہ میں جانیں بچانے کیلئے بھاگ چکے ہیں۔ امریکہ کے گلے لگ کر ”بے بی” جیسی فریادیں کرنے والے بھارت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اس کے پھانسی کے پھندے پر جھولنے اور خود کو سرکاری بندوقوں سے گولیاں مار کر خودکشیاں کرنے والے فوجی اور افسران تعداد میں امریکہ کی فوج کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ فلموں میں بہادری و شجاعت کی تاریخ الٹ پلٹ دینے والے بھارت کی مسلح افواج کو دس ہزار جوانوں کی کمی کا سامنا ہے۔ بھارت میں ایک طرف 30کروڑ لوگ بجلی سے سرے سے محروم ہیں۔ بھوکے ننگے دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ بھاری اکثریت کے پاس طہارت خانہ تک نہیں لیکن… بھارت کے یہ بے بی پھر بھی فوج میں بطور افسر بھی بھرتی کیلئے تیار نہیں… فلم بے بی کے اختتام پر جس طرح بھارتی ہیرو خود کو ہی بے بی قرار دیتے ہیں، اس سے ہی ان کی ذہنیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ بھارت کو بھی اب نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے کہ وہ دو لاشوں سے کب تک لڑتا رہے گا اور کب تک ”بے بی” بن کر اور ہر دروازے پر فریادیں کر کے جان بچاتا رہے گا۔
تحریر : علی عمران شاہین