تحریر:محمد یعقوب شیخ
باچا خان یونیورسٹی کا رہائشی بلاک مذبح کا منظر پیش کر رہا ہے، خون کمروں سے بہ بہ کر برآمدوں کو سیراب کر چکا ہے۔ یہ شہداء کا محترم اور مبارک خون ہے جو ناحق و ناجائز بہایا گیا جن کا جرم کوئی نہیں تھا وہ ظلم کا شکار ہوئے بربریت کی بھینٹ چڑھ گئے وہ تو اپنے کمروں میں سو رہے تھے انہیں ابدی نیند سلا دیا گیا کچھ تیاری کر کے ایجوکیشن بلاک کی طرف جانے ہی والے تھے کہ انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔یہ بات حقیقت ہے کہ شہید کو شہادت کے وقت تکلیف نہیں ہوتی بلکہ اسے اللہ تعالیٰ جنت کا دیدار کروا دیتا ہے اس کا روشن مستقبل اسے دکھا دیا جاتا ہے، دنیا کا ہر غم وہ بھول جاتا ہے۔ لیکن! بعد والے جب ان کی لاشوں اور جائے شہادت کو دیکھتے ہیں تو تڑپ جاتے ہیں سنی سنائی بات اور مشاہدے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ مولانا امیر حمزہ، میں اور ہمارے ہمراہ باجی بشریٰ امیر اور صلاح الدین بھائی اور پشاور سے ہارون الرشید۔ جب اجازت لے کر باچا خان یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو عجیب سی خاموشی تھی افسردگی تھی لیکن! جب رہائشی بلاک میں داخل ہوئے تو شہداء کے خون سے گلشن سجا ہوا تھا، فضائیں معطر تھیں۔ جہاں یونیورسٹی کی سرزمین شہداء کے خون سے سیراب تھی وہاں سفاکوں، قاتلوں، دہشت گردوں اور درندوں کی گولیوں سے در ودیوار چھلنی تھے، دشمن آرمی پبلک سکول کی طرز پر حملہ کرنا چاہتا تھا، بڑی بربادی کا پروگرام لے کر آیا تھا، 110 طالبات کے ہاسٹل پر حملہ کر کے انہیں موت کی نیند سلانے اور پوری قوم کو تڑپانے آیا تھا۔
اس کے لئے اس نے باچا خان کی برسی کا دن منتخب کیا اسی دن یونیورسٹی میں ادیبوں کی آمد، دانشوروں کا اکٹھ اور شاعروں کی آمد تھی جسے امن مشاعرہ کا نام دیا گیا تھا، دشمن ان سب کو مار کر وطن عزیز کو بدنام کرنا چاہتا تھا۔ لیکن! وہ ناکام ہوا، نامراد ہوا، بے بس ہوا اور مارا گیا، جس کے عزائم پورے نہ ہو پائے بلکہ جہنم کا ایندھن بن گیا۔ کامیابی تو پروفیسر حامد حسین کا مقدر بنی جنہوں نے 29 سال کی عمر میں PHD کی ڈگری لندن سے حاصل کر کے دنیا کے متعدد ممالک سے آنے والی آفروں کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ مجھے میرے ملک پاکستان نے پڑھایا ہے، سکالرشپ دیا ہے میں اپنے ہی ملک کی خدمت کروں گا، اپنے ہم وطنوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کروں گا۔ ان کے بھائی نے کہا کہ سعودی عرب آ جائو، امن بھی ہے اور تنخواہ بھی بہت اچھی ملے گی مگر! جذبہ حب الوطنی قدموں کی زنجیر بن گیا۔ لندن سے پڑھ کر باچا خان یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر لگ گئے۔ سانحہ APS کے بعد حکومت کی اجازت سے پسٹل کا لائسنس بنوا کر اسلحہ بھی خرید لیا جب حملہ آور گولیاں برساتے ہوئے آگے بڑھے تو کیمسٹری کے اس ڈاکٹر نے اپنے ہی ادارے اور طلبہ کا دفاع کرتے ہوئے دشمنوں پر فائرنگ کی اور اسی معرکہ میں جام شہادت نوش کر گئے۔ یقینا یہ مقام زور بازو سے نہیں ملا کرتا، میں نے ڈاکٹر حامد کے والد گرامی اور وہاں بیٹھے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ ڈاکٹر صاحب کی شہادت پورے علاقے صوابی اور اس خاندان اور گھرانے کیلئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے، بندوں میں سے جسے چاہتا ہے منتخب کرتا ہے۔ اور یہ انتخاب نہ ووٹوں سے ہوتا ہے اور نہ نوٹوں سے، بلکہ (ویتخذ منکم شھدائ) اللہ تعالیٰ خود تم میں شہداء کا انتخاب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس انتخاب پر پورا گھرانہ راضی برضا تھا کوئی شکوہ و شکایت زباں پر نہیں تھی بوڑھا باپ اور بڑا بھائی سجاد جو کریانہ کی چھوٹی سی دکان کے ذریعے سے گھر کے اخراجات اور ڈاکٹر حامد شہید کی تعلیمی ضروریات پوری کرتے رہے ان کی زبان پر شکایت تو نہیں تھی مگر آنکھوں میں آنسو ضرور تھے، جن کی پکی ہوئی فصل کو درندوں نے اجاڑ دیا۔
کچھ ایسی ہی صورت حال فخر عالم کی ہے جو یونیورسٹی گیسٹ ہائوس کا انچارج تھا، خوش شکل، خوش اخلاق، محب وطن، وفا شعار، ماں باپ کا خدمت گزار، حسن کارکردگی پر گولڈ میڈل حاصل کیا، اپنے رویے کی بدولت یونیورسٹی اور علاقے میں ہردلعزیز شخص تھا۔ جب ہم ان کے گھر تعزیت کیلئے پہنچے تو سب گھر والوں کا جذبہ دیدنی تھا، ان کے والد شاہ حسین کہنے لگے جب مجھے اطلاع ملی کہ یونیورسٹی پر حملہ آوروں نے دھاوا بول دیا ہے تو میں نے کہا میرا بیٹا فخر عالم وہاں موجود ہے وہ مقابلہ کرنے والا ہے، ضرور مقابلہ کرے گا۔ جو باپ نے کہا وہ بیٹے نے کر دکھایا جو پسٹل پاس تھا اسی سے مقابلہ کرتے ہوئے 4 میں سے 2 دشمن عبرت کا نشان بنا دیئے، پسٹل کی گولیاں ختم ہونے پر کلاشن کی طرف لپکا کہ وقت شہادت آن پہنچا۔ ان کے والد صاحب کا کہنا ہے کہ ہم ان کی شہادت سے مطمئن ہیں، خوش ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمارے بیٹے کو بلند مقام عطا کر دیا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو میرے دادا کو انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے اور باپ کو جہاد کشمیر کرتے ہوئے نہ مل سکا۔ میرے بیٹے کی شہادت ہمارے آباو اجداد کی جدوجہد کی تکمیل ہے اور جو کام پروفیسر حافظ محمد سعید کر رہے ہیں وہ ہمارے اجداد کا مشن ہے۔
فخر عالم کے چھوٹے بھائی میر عالم خان نے بتایا کہ 30 گھنٹے گزر جانے کے بعد بھائی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، اطمینان تھا، تو ہم بھی ان کی شہادت پر مطمئن ہیں۔ اسی دوران میں شہید فخر عالم کا بیٹا مصطفی میرے اور امیر حمزہ صاحب کے درمیان آ بیٹھا جو تین بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے ہم نے اسے پیار کیا، دعا دی، پھر میں گہری سوچوں میں گم ہو گیا کہ ان معصوموں کا کیا بنے گا، اس ملک کا مستقبل کیا ہو گا، آنے والے وقت میں اس ملک کے بچے زیور تعلیم سے کیسے آراستہ ہوں گے، جہالت کیسے ختم ہو گی اور دہشت گردی کا خاتمہ کیسے ہو گا۔ ان سوالات نے مجھے ذہنی طور پر مجلس سے الگ تھگ کر دیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر مجلس میں یہ بات کہلوا دی کہ اس ملک کا مستقبل روشن ہے اور رہے گا۔
کیونکہ اب عام لوگوں نے، محب وطن شہریوں نے اپنے تعلیمی اداروں، ملک اور اسلام کے تحفظ کا عزم مصمم کر لیا ہے۔ پروفیسر، ڈاکٹر، طالبعلم اور ملازم محافظین وطن کی صف میں کھڑے ہو گئے ہیں، فوج اور پولیس کے شانہ بشانہ ہیں، کسی تعلیمی ادارے کے اساتذہ، طلبہ اور ملازمین کا اس طرح دہشت گردوں کے خلاف کھڑے ہونے کا دنیا میں یہ اک منفرد واقعہ ہے جو پاکستان میں دیکھنے کو ملا ہے۔ اقوام عالم کیلئے اس سے بڑی دلیل اور ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ پاکستان کی افواج، ادارے اور عوام سب دہشت گردی کے خلاف صف آرا ہیں، افواج کے ساتھ عوام بھی قربانیوں کی داستاں رقم کر رہے ہیں۔ دنیا میں پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک نے ایسی مثال پیش نہیں کی۔ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ کام کر رہا ہے اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ جانوںکے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ اس بار تو دشمن نے نونہالوں کے بجائے نوجوانوں کو نشانے پر لیا ہے، فائنل ایئر اور فارغ التحصیل طلبہ کو ٹارگٹ کیا ہے۔ حافظ آصف شہید تو بی بی اے کی ڈگری لینے یونیورسٹی گیا تھا کہ لقمہ اجل ہو گیا، اس کا سینہ تو کلام الٰہی کی حفاظت گاہ تھا، یہ تو محلے بھر کے بچوں کو قرآن کی تعلیم دیتا تھا، مسجد میں امامت بھی کرواتا تھا اور دینی علوم کے تیسرے سال کا طالب علم بھی تھا۔
پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والے دنیا کے منصفو! کچھ تو عقل کے ناخن لو! یہاں بوڑھوں کے سہارے اور بیویوں کے سرتاج کٹ گئے ہیں بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو گئی ہیں، طلبہ سے اساتذہ اور اساتذہ سے طلبہ بچھڑ گئے ہیں۔ سوموار کو یونیورسٹی کھلی ہے تو کئی طلبہ، اساتذہ اور عملے کے لوگ یونیورسٹی میں نہیں بلکہ اللہ کی جنتوں میں جا چکے تھے، لیکن! ان کے مقدس خون کے اثرات اور ان کی یادیں ہر دل میں موجزن ہیں۔ ان کے جذبوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے، ان کے حوصلوں نے قوم کو ایک نئی جہت اور ان کی شہادت نے ملت کو ایک نئی سمت دی ہے۔ یہ مر کر بھی زندہ ہیں اور دشمن زندہ ہوتے ہوئے بھی مردار ہے۔ شہداء کی ان قربانیوں کی بدولت پاکستان دشمنوں کی سازشوں اور تخریب کاریوں سے آزاد ہو گا اور امن کا گہوارہ بنے گا۔ ہندوستان اور دیگر ملک دشمنوں کے عزائم، ارادے، حربے اور چالیں ناکام ہوں گی۔ پاکستان شاد و آباد رہے گا۔(ان شاء اللہ)
تحریر:محمد یعقوب شیخ