تحریر : جاوید چوہدری
میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کوئٹہ کے 73 شہداء کا فجی کے ساتھ بھی کوئی تعلق ہو گا لیکن یہ تعلق نکلا اور اس تعلق نے میری روح کو زخمی کر دیا۔ میں 29 جون کی رات سوہا میں تھا‘ ہوٹل کی بالکونی سے فجی کی پارلیمنٹ دکھائی دے رہی تھی‘ ہوٹل کی پشت پر سمندر تھا‘ سمندر کی ہوائیں عمارتوں سے بچ بچا کر پارلیمنٹ تک آتی تھیں‘ ہاﺅس سے ٹکراتی تھیں اور پلٹ کر ہوٹل کی بالکونی میں بکھر جاتی تھیں‘ میں اندھیرے میں بیٹھ کر رات کی گہرائی کو محسوس کر رہا تھا‘ اچانک فون کی گھنٹی بجی‘ کوئی صاحب ہوٹل کی ریسپشن پر کھڑے تھے‘ میں پریشان ہو گیا‘ اجنبی شہر‘ ایک دن کا قیام اور کوئی رات کے وقت آپ سے ملنے آ جائے‘ بات پریشانی کی تھی‘ میں لابی میں آگیا‘ میرے سامنے ایک نیم بزرگ شخص کھڑے تھے‘ میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا‘ وہ مجھے تلاش کرتے کرتے یہاں پہنچے تھے‘ نام شاید عبدالقادر تھا‘ وہ مجھے کوئی راز بتانا چاہتے تھے۔
ان کا کہنا تھا‘ وہ یہ راز دس سال سے سینے میں دبا کر پھر رہے ہیں لیکن انہیں کوئی مناسب پاکستانی نہیں مل رہا‘ میں شام کے وقت ایک افطار ڈنر میں مدعو تھا‘ کسی پاکستانی ڈاکٹر نے میری تصویر فیس بک پر شیئر کر دی‘ وہ تصویر ان تک پہنچی‘ انہوں نے گوگل اور فیس بک پر میرا پروفائل دیکھا اور وہ میری تلاش میں نکل کھڑے ہوئے‘ وہ تین نسلوں سے فجی کے شہری تھے‘ ان کا دادا 1906ءمیں جالندھر سے نادی آیا‘ والد اس وقت چھوٹے تھے اور جالندھر میں رہتے تھے‘ دادا نے 1920ءمیں اسے بھی نادی بلا لیا‘ والد نے لیٹ شادی کی‘ یہ پیدا ہوئے‘ پیچھے سے ملک تقسیم ہو گیا‘ خاندان پاکستان چلا گیا‘ یہ آج تک کنفیوژ ہیں‘ یہ ہندوستانی ہیں یا پاکستانی‘ یہ کبھی بھارت یا پاکستان نہیں گئے لیکن یہ دل میں پاکستان کےلئے محبت محسوس کرتے ہیں اور یہ محبت انہیں کھینچ کر میرے ہوٹل تک لے آئی‘میں پوری دلچسپی سے ان کی یہ داستان سنتا رہا۔
بزرگ نے بیک گراﺅنڈ بتانے کے بعد وہ راز بتانا شروع کر دیا جو ہماری ملاقات کی وجہ بن رہا تھا۔ بزرگ نے بتایا ”بھارت کے خارجہ امور کے وزیر مملکت ای احمد اکتوبر 2006ءمیں فجی کے دورے پر آئے‘ یہ کیرالہ کے رہنے والے ہیں‘ مسلمان ہیں اور پرانے سیاستدان ہیں‘ یہ بھارت میں انڈین یونین مسلم لیگ کے صدر بھی ہیں‘ یہ 1965ءسے سیاست میں ہیں‘ پانچ بار کیرالہ کی صوبائی اسمبلی کے رکن بنے‘ یہ کیرالہ کے صوبائی وزیر بھی رہے‘ یہ 1991ءسے سات بار بھارت کی قومی اسمبلی لوک سبھا کے رکن الیکٹ ہوئے‘ یہ تین بار منسٹر فار سٹیٹ بھی رہے‘ یہ دو بار بھارت میں خارجہ امور کے سٹیٹ منسٹر بنے‘ یہ پڑھے لکھے ہیں‘ یہ چار کتابوں کے مصنف ہیں اور یہ سات آٹھ حج بھی کر چکے ہیں چنانچہ یہ ہر لحاظ سے سینئر‘ سیریس اور مدبر ہیں‘ دنیا کا شاید ہی کوئی شخص ان کی بات کو غیر سنجیدہ لے سکے‘ یہ اکتوبر 2006ءمیں فجی کے دورے پر آئے‘ یہ انڈین سفارت خانے کے مہمان تھے‘ ای احمد نے دورے کے آخر میں فجی کے بھارتی مسلمانوں سے ملاقات کی فرمائش کی‘ بھارتی سفیر نے فجی کی مسلم لیگ سے رابطہ کیا‘ ہم نے بھارتی سفارتخانے کی درخواست پر نادی میں ای احمد کےلئے ریسپشن کا بندوبست کر دیا‘ وہ آئے اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئے‘ سفارت خانے کے لوگ سائے کی طرح ان کے ساتھ تھے۔
وہ انہیں باتھ روم میں بھی اکیلا نہیں جانے دے رہے تھے‘ ای احمد آخر میں چائے لینے کےلئے اٹھے تو میں سیدھا ان کے پاس چلا گیا‘ سیکورٹی اور سفارت خانے کے لوگ اس وقت چائے پینے میں مصروف تھے‘ میں نے وزیر صاحب کو سلام کیا‘ اپنا تعارف کرایا اور ان سے پوچھا ‘بھارت اور پاکستان کے درمیان آج کل ٹریک ٹو ڈپلومیسی چل رہی ہے‘ اس کا کوئی نتیجہ نکلے گا؟ ای احمد نے مجھ سے پوچھا ”آپ کا تعلق کس دیش سے ہے“ میں نے جواب دیا ”میرے دادا جالندھر سے آئے تھے“ وزیر نے سر ہلایا اور بولے ”ٹریک ٹو ہو‘تھری ہو یا فور ہو‘ کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا“ میں نے پوچھا ”کیوں؟“ وزیر نے جواب دیا ”ہم نے فیصلہ کر لیا ہے ہم کشمیر کی ایک انچ زمین پاکستان کو نہیں دیں گے“ میں نے پوچھا ”یہ فیصلہ کس نے کیا“ ای احمد کا جواب تھا ”یہ فیصلہ بی جے پی‘ کانگریس اور انڈین آرمی تینوں نے مل کر کیا‘ ہم کشمیر کے معاملے میں متفق ہیں“ میں نے پوچھا ”لیکن کشمیر میں بہت لوگ مر رہے ہیں‘یہ لوگ کب تک مرتے رہیں گے“ ای احمد نے سخت لہجے میں جواب دیا ”آپ فکر نہ کریں‘ ہم نے میکسی مم نقصان کا اندازہ کر لیا ہے‘ ہم بڑا ملک ہیں‘ ہماری اکانومی بھی اچھی ہے‘ ہم ہر قسم کا نقصان برداشت کر لیں گے لیکن پاکستان ہمارے مقابلے میں آدھا بوجھ بھی نہیں سہہ سکے گا‘ یہ ٹوٹ جائے گا۔
بزرگ نے ماتھے سے پسینہ صاف کیا‘ لمبی سانس لی اور بولے ”میں وزیر کی بات پر پریشان ہو گیا‘ میں نے اس سے پوچھا‘ مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی‘ وزیر نے واضح لہجے میں جواب دیا‘ پاکستان نے 1980ءکی دہائی میں بھارت کےلئے دو گڑھے کھودے تھے‘ خالصتان اور کشمیر‘ پاکستان کا خیال تھا بھارت کی سفارت کاری خالصتان کے ایشو پر ناکام ہو جائے گی‘ ہم دنیا کو جواب نہیں دے سکیں گے‘ دوسری طرف ہماری فوج کشمیر میں لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک جائے گی‘ ہمیں ان دونوں گڑھوں نے بہت نقصان پہنچایا‘ ہم خالصتان کے ایشو پر بیک فٹ پر آ گئے‘ ہمیں کشمیر میں اپنی آدھی فوج بھی لگانا پڑی‘ ہم 25 سال سے کشمیر میں سات لاکھ فوجیوں کا خرچ برداشت کر رہے ہیں‘ پاکستان نے یہ گڑھا بہت خوبصورتی سے کھودا تھا‘ دنیا کے کسی بھی ملک کےلئے 25 سال تک سات لاکھ فوجیوں کے اخراجات برداشت کرنا ممکن نہیں ہوتا‘ پاکستان کا خیال تھا بھارت تھک جائے گا اور یہ مذاکرات کےلئے مجبور ہو جائے گا لیکن ہم نے جیسے تیسے یہ وقت گزار لیا‘ ہم اب اسی قسم کا ایک گڑھا پاکستان کےلئے کھود رہے ہیں‘ ہم افغانستان اور ایران کو پاکستان کےلئے ایل او سی اور بلوچستان کوکشمیر بنا رہے ہیں۔
پاکستان نے ہمیں آدھی فوج کشمیر میں لگانے پر مجبور کیا تھا ہم نے اگر اس کی پوری فوج افغانستان اور ایران کے بارڈر پر نہ لگوائی‘ ہم نے اگر بلوچستان میں کشمیر جیسے حالات پیدا نہ کئے تو آپ بھارت کا نام بدل دیجئے گا“میں نے وزیر صاحب سے پوچھا‘ آپ یہ کریں گے کیسے؟‘ وزیر نے ہنس کر جواب دیا‘ ہم یہ کر چکے ہیں‘ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے وہ افغانستان اور وہ ایران جو کبھی پاکستان کا مورچہ ہوتا تھا وہاںپاکستان کے خلاف نعرے بھی لگیں گے‘ وہاں سے پاکستان پر حملے بھی ہوں گے اور پاکستان وہاں اپنی فوجیں لگانے پر بھی مجبور ہو گا‘ آپ اپنی زندگی میں یہ بھی دیکھیں گے وہ بلوچستان جسے پاکستان ٹیلی فون سے چلا رہا ہے وہاں اسے اپنی فوجیں اتارنا پڑیں گی اور پاکستان جیسے غریب ملک کےلئے اتنے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا‘ یہ کس کس محاذ پر اور کتنی دیر لڑسکے گا‘ پاکستان کی فوج ایل او سی کی حفاظت کرے گی‘ یہ پنجاب اور تھرپارکر کی سرحدوں پر نظر رکھے گی‘ یہ افغانستان اور ایران کے بارڈر کو بچائے گی۔
یہ کراچی اور پشاور کو دیکھے گی یا پھر یہ جنرل پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو اور نواز شریف سے بچائے گی‘ آپ خود فیصلہ کیجئے‘ وزیر نے کپ میز پررکھا اور سختی سے کہا‘ پاکستان کو اب اپنی خیر منانی ہو گی‘ اسے کشمیر کی بجائے بلوچستان کے بارے میں سوچنا ہو گا‘ وزیر نے بات ختم کی اور سفارت خانے کے لوگوں میں گھل مل گیا لیکن میں اس دن سے ان باتوں پر غور کر رہا ہوں“ بزرگ نے ایک بار پھر اپنا ماتھا صاف کیا اور مجھ سے مخاطب ہوئے ”میں فجی کا شہری ہوں‘ میرے بزرگ 110 سال پہلے جالندھر سے یہاں آئے تھے‘ ہم نے پاکستان نہیں دیکھا لیکن میں اس کے باوجود اپنے دل میں آپ کے ملک کےلئے محبت محسوس کرتا ہوں‘ آپ خدا کےلئے پاکستان کی حفاظت کریں‘ مجھے آپ کا ملک خطرے میں نظر آ رہا ہے“۔ بزرگ اٹھے‘ سلام کیا اور ہوٹل سے نکل گئے‘ میں نے کل کوئٹہ میں 73 لوگوں کی لاشیں دیکھیں تو مجھے فجی‘ جالندھر کا وہ سابق شہری اور بھارتی وزیر ای احمد تینوں یاد آ گئے‘ مجھے فجی اور کوئٹہ کے 73 شہداءمیں گہرا تعلق نظر آیا‘ کاش ہم یہ جان لیں‘ ہم واقعی خطرے میں ہیں اور ہم اگر آج پاکستان کی حفاظت کےلئے نہ اٹھے تو ہم کبھی اٹھنے کے قابل نہیں رہیں گے
تحریر : جاوید چوہدری