لاہور; نواز شریف صاحب آپ اس خطے کا صدیوں پرانا قرض اتار رہے ہیں۔۔۔ وقت کی سب سے بڑی طاقت کے سامنے اس طرح سینہ تان کر اور خم ٹھونک کر کوئی کھڑا نہیں ہوا۔۔۔ آپ تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں۔۔۔ وزیراعلیٰ پنجاب بھی۔۔۔ ایسا آدمی ہمارے یہاں اشرافیہ کا سب سے اہم جزو بن جاتا ہے۔
نامور کالم نگار عطاالرحمٰن اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔ اس کے لیے تمام مراعات اور دنیوی مقام و مرتبے کو خاطر میں نہ لا کر مقابلے پر اتر آنا آسان نہیں ہوتا۔ آپ اور آپ کی بیٹی جیل نہیں کاٹ رہے تاریخ رقم کر رہے ہیں۔۔۔ گزشتہ صدی کی بیس کی دہائی میں جب ہندوستان کی تحریک آزادی نے قوت پکڑی۔۔۔ مسلمان اور ہندو رہنما پابند سلاسل کر دیے گئے۔۔۔ تب پنڈت نہرو نے اپنی بیٹی اندرا گاندھی کے نام خطوط لکھنا شروع کیے۔۔۔ بیٹی سے مخاطب ہو کر لکھا ہم تاریخ بنا رہے ہیں۔۔۔ آنے والی تاریخ ہمارے نام سے معنون ہو گی۔۔۔ نہرو گاندھی اور جناح نے فی الواقع تاریخ بنائی۔۔۔ اب قدرت اور حالات نے آپ کو یہ فریضہ سوہنا ہے‘‘۔۔۔ میرے یہ الفاظ سن کر نواز شریف اور پاس بیٹھی ان کی بیٹی مریم مسکرائے ۔۔۔ ان کے چہروں سے اعتماد جھلک رہا تھا۔۔۔ لہجے میں ٹھہراؤ تھا۔۔۔ شخصیت میں وہی وقار تھا۔۔۔ جیل کی صعوبتوں نے ماتھوں پر شکن نہیں آنے دی۔۔۔ جواب میں کہا شاید تاریخ ہمیں رقم کر رہی ہے۔۔۔ مریم بولیں پنڈت نہرو کے خطوط Glimpses of world history کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔۔۔ وہ جواں عمر خاتون ہے۔۔۔ باپ کے مقابلے میں کم تجربہ کار چھوٹے بچے چھوڑ کر جیل میں آئی ہے۔
شوہر کو بھی اس سے تعلق کی بنا پر قید خانے میں بند کر دیا گیا ہے۔۔۔ باپ بیٹی لندن کے ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا بیوی اور والدہ کو چھوڑ کر ملکی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں کاٹنے کی خاطر سات سمندر پار سے وطن واپس چلے آئے۔۔۔ اگر دوسروں کی مانند مقدمات کو بوگس قرار دے کر واپس نہ آنے کی راہ اختیار کرتے تو کوئی انہیں روک نہیں سکتا تھا۔۔۔ آخر اسی ملک کا ایک ڈکٹیٹر اور کمانڈو کی شہرت رکھنے والا غاصب مقتدر قوتوں کی حمایت سے باہر جا بیٹھا ہے عدالت عظمیٰ کے بار بار بلاوے کے باوجود آنے کا نام نہیں لیتا۔۔۔ دبئی اور لندن کے پر تعیش فلیٹوں میں عیش و آرام کے دن گزار رہا ہے۔۔۔ عدالتوں نے اشتہاری قرار دیا ہے۔۔۔ لیکن کوئی اس کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔۔۔ بلکہ اپنے سابقہ عہدے کی بنا پر غیر ممالک کے اندر بھی اسے سرکاری خرچے پر سکیورٹی دستیاب ہے۔۔۔ نوا زشریف نامی شخص نے اس کے برعکس بار بار عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے والے سویلین سیاستدان کی حیثیت سے آئین و جمہوریت کی حکمرانی اور قائداعظم کے سویلین بالادستی کے تصور کو مسلمہ بنانے
کی خاطر پاکستان لوٹ کر جیل کی ہوا کھانا قبول کر لیا ہے۔۔۔ وہ اس ملک کو حقیقی جمہوریت سے آشنا کرنے اور آئین مملکت کو الفاظ اور روح کے ساتھ بالادست بنانے کے لیے سلاخوں کے پیچھے بیٹھا اسی طرح پر عزم ہے جیسے وزارت عظمیٰ کے ادوار میں تھا۔۔۔ پابند سلاسل ہو کر بھی آئین سے انقباص رکھنے والی قوتوں کے ساتھ پامردی کے ساتھ نبرد آزما ہے جس یقین کے ساتھ دوران حکمرانی ماتحت اداروں کی جانب سے فوقیت منوانے کی تمام تر کوششوں کے آگے رکاوٹ بن جاتا تھا۔۔۔ سٹیک ہولڈروں نے اس رکاوٹ کو جیل کی کال کوٹھری میں بند کر دیا ہے۔۔۔ بہادر بیٹی باپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے جمعرات 29 اگست کی آدھ گھنٹہ کی ملاقات کے دوران میں نے مریم سے کہا وہ اپنی یادداشتوں کے نوٹ لینا شروع کر دے۔۔۔ گزرنے والے ایک ایک لمحے کو قلم و قرطاس پر محفوظ کر لے۔۔۔ یہی یادداشتیں کتابی صورت میں سامنے آئیں گی تو اگلی نسلوں کے لیے قومی تاریخ کے اہم موڑ اور منفرد واقعات سے شعور اور جذبہ حاصل کرنے کا باعث بنیں گی۔۔۔ مریم نے بلند حوصلگی کے ساتھ مسکراتے ہوئے جواب دیا آپ نے مشورہ دیا ہے تو میں یہ کام ضرور
کروں گی آج سے ہی لکھنا شروع کر دوں گی۔۔۔ نواز شریف صاحب پاس بیٹھے سب کچھ سن رہے تھے ۔۔۔ بیٹی سے کہا جانتی ہو یہ کون ہیں۔۔۔ بیٹی نے اعتماد بھری مسکراہٹ سے بھرپور جذبے کے ساتھ کہا جی ہاں میں انہیں اچھی طرح جانتی ہوں۔کمرہ ملاقات میں سابق گورنر سندھ محمد زبیر، مریم اورنگزیب ، امیر مقام اور ممتاز صحافی سہیل وڑائچ بھی موجود تھے۔ برادرم رؤف طاہر نے اس ملاقات خاطر لاہور سے میرے ساتھ عزم سفر باندھا تھا۔۔۔ آٹھ دس دوسرے افراد بھی ملاقاتیوں کے اس گروپ میں شامل تھے۔۔۔ اچانک ہماری نگاہ حنیف عباسی صاحب پر پڑی وہ حسب عادت چہک رہے تھے۔۔۔ ہنستے مسکراتے اپنی بیرک سے آن نکلے تھے۔۔۔ لیڈر کے چہرے پر جو اعتماد جھلک رہا تھا۔۔۔ مسکراہٹیں بکھرتی جا رہی تھی۔۔۔ انہیں دیکھ کر خود بھی حوصلہ پکڑ رہے تھے۔۔۔ یہ پونے دو بجے بعد از دوپر کا وقت تھا۔۔۔ میاں صاحب کوئی آدھ گھنٹہ قبل بیٹی کے ہمراہ احتساب عدالت میں پیشی سے فارغ ہو کر اڈیالہ جیل کے کمرہ ملاقات میں فردکش تھے۔۔۔ ہم سے پہلے ایک گروپ کی ملاقات ہو چکی تھی۔۔۔ جیل کے بیرونی گیٹ پر ملاقات کے متمنی لوگوں کا ہجوم تھا۔۔۔ کچھ پیدل تھے اور گاڑیوں کی لمبی قطار بھی لگی ہوئی تھی۔
میاں صاحب ملاقات کے لیے متعین جمعرات کے اس روز عدالت سے حاضری کے لیے استثناء لے سکتے تھے۔۔۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔۔۔ سخت سکیورٹی کے حصار میں دس بجے صبح انہیں کمرہ عدالت میں پہنچا دیا گیا۔۔۔ مسلم لیگ (ن) کے لیڈروں اور کارکنوں کا وہاں بھی بڑا جمگٹھا تھا۔۔۔ مقدمے کی کارروائی کے دوران میاں صاحب کے وکیل خواجہ حارث کے ہاتھوں استغاثہ کے سب سے بڑے گواہ اور جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کی جو درگت بن رہی ہے اس کی جھلکیاں آپ چینلوں اور اخبارات پر ملاحظہ کر رہے ہیں۔۔۔ اس روز بھی واجد ضیاء سمیت نیب کے پراسیکیوٹر کو جس خفت کا سامنا کرنا پڑا وہ عدالتی کارروائی کا حصہ بن چکی ہے۔۔۔ فیصلہ میاں صاحب کے حق میں آتا ہے یا نہیں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ’’مرضی مولیٰ‘‘ کچھ اور ہے۔۔۔ اس سے قبل ایون فیلڈ فلیٹس کے مقدمے پر جج محمد بشیر صاحب نے جو فیصلہ دیا اور کڑی سزائیں صادر کیں ان کی کھوکھلی بنیادیں اور کمزور قانونی پہلو ہر کہ و مہ پر واضح ہو چکے ہیں۔۔۔ تقریباً تمام اور مسلمہ ماہرین آئین و قانون متفق ہیں کہ اقامہ کے جس مضحکہ خیز الزام کے تحت تین مرتبہ منتخب ہونے وزیراعظم کو برطرف اور
تاحیات نا اہل قرار دیا گیا اسی قدر کھوکھلی قانونی بنیاد پر نیب کا پہلا فیصلہ صادر ہوا ہے۔۔۔ جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ کرپشن کا ایک ثبوت نہیں ملا۔۔۔ مگر لندن کے اثاثے آمدنی سے زیادہ ہیں کتنی، کس کی آمدنی اور کس مالیت کے اثاثے۔۔۔ یہ بتانے میں خاصے اہتمام کے ساتھ بنائی گئی عدالت ناکام رہی۔۔۔ مگر سزائیں ااور جرمانہ اتنی زیادہ دی گئی ہیں کہ کھوکھلے الزامات کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔۔۔ میاں صاحب کی گرفتاری کے فوراً بعد ضمانت ہو سکتی تھی۔۔۔ لیکن اوپر والوں پر خوف طاری تھا جیل سے باہر نکل کر نواز شریف اور مریم انتخابی فضا کو بدل کر رکھ دیں گے۔۔۔ لہٰذا دونوں میں سے ایک کی بھی رہائی نہ ہوئی۔۔۔ اب بھی جو مقدمات کو طوالت دی جا رہی ہے۔۔۔ بنچ بنتے اور ٹوٹتے رہے۔۔۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی اگلی سماعت گیارہ ستمبر تک متاخر کر دی گئی ہے۔۔۔ سینئر جج جسٹس اطہر من اللہ بلاشبہ انصاف کا دامن تھامے رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں۔۔۔ فریقین نے ان پر اظہار اعتماد بھی کیا ہے۔۔۔ مگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے سب سے سینئر جج جسٹس شوکت صدیقی برملا کہہ چکے ہیں کہ ماقبل بنچوں کی تشکیل میں محکمہ زراعت والوں کی ایما شامل تھی۔
اس پر ان کی جانب غراّتی آنکھوں کے ساتھ بہت دیکھا گیا۔۔۔ مگر ابھی تک ٹھوس شواہد کے ساتھ الزام کی تردید ہوئی ہے نہ جج صدیقی کا کچھ بگاڑا جا سکا ہے۔۔۔ خوف اب بھی لاحق ہے نواز شریف یا بیٹی میں سے کوئی بھی باہر آ گیا تو بام و در ہلا کر رکھ دے گا۔۔۔ لہٰذا کسی نہ کسی بہانے انہیں مقید رکھنا ہی مقصود ہے۔۔۔ نواز شریف طاقتوروں کے اپنے ساتھ کیے جانے والے تمام تر سلوک اس کے پیچھے چھپے عزائم سے مکمل آگاہی رکھنے کے باوجود پر عزم ہیں۔۔۔ ڈٹ کر مقدمات لڑ رہے ہیں۔۔۔ جمعرات کو اڈیالہ جیل میں ان سے مصافحہ ہوا تو روایتی ہلکا نیلا شلوار قمیص سوٹ پہنے اس شخص پر وہی کیفیات طاری تھیں جن کے ساتھ وزیراعظم کی حیثیت سے ملتا تھا۔۔۔اس کے اطوار میں سر مو فرق نہ آیا تھا۔مسئلہ مگر نواز شریف کا نہیں۔۔۔ نہ اس کی سیاسی وارث بننے کی راہ پر گامزن بیٹی کا ہے۔۔۔ اس خاندان کو پاکستان میں جتنا سیاسی و حکومتی عروج ملا ہے، کم کسی کے نصیب میں آیا ہو گا۔۔۔ تین مرتبہ وزارت عظمیٰ محنت کش کے بیٹے کی جھولی میں آن گری اور پنجاب جیسے صوبے کی وزارت علیا گھر کی لونڈی بنی رہی۔۔۔ باپ دادا جاگیر دار تھے نہ جرنیل۔
صنعتکار ہاتھوں کی محنت سے بنے اور سیاست میں آنے سے بہت پہلے ایوب خان اور ان سے ماقبل ادوار میں بنے۔۔۔ بھٹو اور مشرف نے اپنی اپنی باری پر سب کچھ چھین لیا۔۔۔ آزمائشوں کا سامنا ماضی میں بھی ہوا۔۔۔ اب بھی ڈٹ کر کھڑے ہیں۔۔۔ پاکستان کی قومی و سیاسی تاریخ کے جاندار ابواب رقم کیے ہیں۔۔۔ اتنا کچھ حاصل کر لینے کے بعد اقتدار اگر دوبارہ نہیں ملتا تو زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔۔۔ مگر یہ ملک جس کی مقتدر قوتیں ہر حالت میں اپنی دسترس قائم کر رکھنے کی خاطر سیاست و حکومت کے شفاف آئینی و جمہوری نظام کو گدلا کر کے رکھ دینے کے در پے آزار ہیں اس مقصد کے لیے ہرگز نہیں بنایا گیا تھا کہ سویلین بالادستی کا تصور جو بانی مملکت قائداعظم کو بہت عزیز تھا ملیا میٹ کر کے رکھ دیا جائے۔۔۔ جمہوریت کا ایسا ایڈیشن تیار کر کے زبردستی رائج کیا جائے کہ آئین کی وقعت باقی رہے نہ عوامی مینڈیٹ کی۔۔۔ سکندر مرزا اور ایوب خان جس پابند جمہوریت کا خواب دیکھا تھا اس کی نئی تعبیر سامنے لائی جا رہی ہے۔۔۔ ملک دور جدید کے مگر ایسے ترقی نہیں کرتے نہ کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہو پاتے ہیں۔۔۔ جو ادارے ماتحت ہیں انہیں حقیقی معنوں میں ما تحت رہنا چاہیے
صرف زبانی کلامی اس کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ امریکہ میں آئین اور جمہوریت کے سایہ تلے منتخب حکمران آخری فیصلے کرتا ہے۔۔۔ یہی معاملہ پارلیمانی جمہوریت کی ماں برطانیہ کا ہے۔۔۔ ان ممالک کے اندر یہاں تک کہ بھارت میں بھی سٹیک ہولڈرز نامی کسی شے کا ہماری طرح وجود پایا جاتا ہے نہ ان کا اٹھتے بیٹھتے ذکر ہوتا ہے۔۔۔ یہ مخلوق اور کار حکمرانی میں اس کی شرکت کا تصور معلوم نہیں ہمارے یہاں کیوں اور کیسے در آیا ہے۔۔۔ امریکہ کا صدر ہو یا برطانیہ، بھارت اور دوسری آزاد جمہوریتوں کے وزرائے اعظم پالیسی سازی کے عمل کے دوران سول اور عسکری ذمہ داران سے ماتحتوں کی حیثیت سے مشاورت کرتے ہیں لیکن یہ ان کے اعصاب پرسوارنہیں ہوتے نہ کسی کو اپنی جناب میں جواب دہ بناتے ہیں۔۔۔ سٹیک ہولڈر کا جو غیر جمہوری تصور پاکستان میں رائج کیاجا رہا ہے،اس کا ہمارے کیا دنیا کے کسی جمہوری ملک کے آئین و دستور میں اشارہ تک نہیں پایا جاتا۔۔۔ نہ صحتمند جمہوری روایات کے اندر اس کی گنجائش ہے۔۔۔ صدر، وزیراعظم اور ان کی کابینہ پارلیمنٹ کیسامنے جوابدہ ہوتے ہیں۔۔۔ ادارے ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔ ہمارے یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔۔۔ راولپنڈی میں اس کا سر چشمہ پایا جاتا ہے۔۔۔ اسی راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ایک ملاقات کر کے میں آیا ہوں۔۔۔وہ راولپنڈی جہاں دو وزیراعظم قتل ہوئے۔۔۔ ایک کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔۔۔ ایک اس وقت سلاخوں کے پیچھے بیٹھا مقدمات بھگت رہا ہے۔۔۔ یہ سٹیک ہولڈرز کی کارفرمائی کا ثمر ہے جو قوم کو ملتا چلا جا رہا ہے۔