پشاور: ہائی کورٹ نے مشال قتل کیس عدالتی فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کو سماعت کے لیے منظور کرلیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس قلندر علی خان اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پر مشتمل بنچ نے مشال قتل کیس میں انسداد دہشتگردی عدالت کے فیصلے کے خلاف صوبائی حکومت اور مشال کے بھائی ایمل خان سمیت 6 مختلف درخواست گزاروں کی جانب سے دائر اپیلوں کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے موقف اختیار کیا کہ انسداد دہشتگردی کی عدالت نے جن 26 ملزمان کو بری کیا وہ بھی واقعے کے وقت وہاں پر موجود تھے۔ ان تمام افراد کی شناخت موقع پر لی گئی ویڈیوز اور فوٹیجز سے کی گئی ہے۔ اس لئے عدالت عالیہ ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کالعدم قرار دے۔
درخواست گزاروں کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی کہ بری کئے گئے ملزمان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود تھے اور اس کی ویڈیو بھی عدالت میں پیش کی گئی تاہم عدالت نے اہم شہادتوں کو نظر انداز کیا اور اسی وجہ سے کیس کے ان 26 ملزمان کو بری کردیا گیا حالانکہ مشال خان کو انتہائی بیدردی سے قتل کیا گیا ۔ عدالت عالیہ 2 فروری 2018 کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر بری کئے گئے ملزمان کو سزا دے۔ عدالت نے صوبائی حکومت اور مشال کے والد کی جانب سے دائر اپیلیں سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے تمام فریقین کو نوٹس جاری کردئیے۔
واضح رہے کہ 13 اپریل 2017 کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام پر ہجوم نے مشال خان نامی طالب علم کو تشدد کانشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔ انسداد دہشتگردی کی عدالت نے کئی ماہ سماعت کے بعد ایک مجرم کو سزائے موت، 5 مجرموں کو 25 سال قید اور 25 مجرموں کو 3 سال قید جبکہ 26 ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔ بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد بینچ نے مشال قتل کیس کے 25 ملزمان کی سزاؤں کو معطل کرکے ملزمان کو رہا کردیا تھا۔