تحریر: روہیل اکبر
گذشتہ روز جب صدیق بلوچ کے خلاف ٹربیونل کا فیصلہ آیا تو تحریک انصاف کے قائدین نے کپتان کی ہٹرک مکمل ہونے پر خوب جشن منایا کچھ نے سڑکوں پر اور کچھ نے اپنے اپنے مخصوص ٹھکانوں پر اپنے مخصوص انداز میں جی بھر کر نہیں بلکہ ڈوب کر جشن منایا پاکستان تحریک انصاف کے اراکین پنجاب اسمبلی نے بھی اسمبلی کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر خوشی کا اظہار کیا یہاں پر چوں کہ پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے عوام کی نمائندگی کرنے والے خواتین اور مرد ممبران موجود تھے اس لیے انکے درمیان جشن منانے کا بڑا مزہ آیا بڑے دلچسپ جملے نعروں کی صورت میں سننے کو ملے ایک نعرہ جو بار بار لگ رہا تھا وہ تھا مالشیے ٹھاہ کا ایک عوام نمائندہ نعرہ لگاتا مالشیے تو دوسرے اراکین جواب میں کہتے ٹھاہ وہ نعرے لگا رہے تھے تو میں سوچنے لگا کہ اس ملک میں کون ہے جو مالشیا نہیں ہے۔
ویسے تو مالشیا اسے کہتے ہیں جو مختلف قسم کے تیل کی بدولت اپنے ہاتھوں کے زور سے مالش کرتے ہوئے انسان کا تیل نکال دے ایسے مالشیے اکثر دیہاتوں میں وڈیروں ،ضاگیرداروں اور چوہدریوں کے ڈیروں پر ہر وقت موجود رہتے تھے جو وڈیروں اور چوہدریوں کی مالش تو کیا ہی کرتے تھے مگر ساتھ ساتھ وہاں پر آنے والے چوہدریوں کے مہمانوں کی بھی مالش کرکے انکی تھکاوٹ اتارا کرتے تھے یہ مالشیے چرب زبان ہونے کے ساتھ ساتھ نہ صرف اپنے ہاتھ کے فن سے بخوبی واقف تھے بلکہ اپنے سامنے لیٹے ہوئے وڈیرے ،نواب اور جاگیر دار کی رمض رمض سے بھی واقف ہوتے تھے یہی مالشیے جب کسی کی تعریف کردیتے تو وہ جاگیردار کی نظروں میں اچھا بن جاتا اور جس کی وہ بدخوئی کرتے وہ جاگیر دار کی نظروں میں گر جاتا تھا پھر یہی طریقہ ہماری سیاست میں بھی رائج ہوگیا جو مالشیا بن کر پارٹی قائدین کے ساتھ چمٹ گیا۔
پھر اسی کے وارے نیارے ہونے لگے وہی وزیر بنا اور لوٹ مار کا بادشاہ کہلایافوجی دور میں سیاستدانوں نے آمروں کی نظروں میں آنے کے لیے انکی مالش کے ہر طریقے آزمائے مگر کامیاب وہی ہوا جو اچھا مالشیا ہونے کے ساتھ ساتھ اچھا چرب زبان بھی تھا وہ آمروں کے قریب ہوگیا کیونکہ آمراپنے ساتھ چلانے کے لیے کسی قابل اور ایماندار شخص کی ضرورت نہیں ہوتی اسے اپنی گود میں بٹھا نے کے لیے کسی ایسے مالشیے کی ضرورت ہوتی ہے جو گل باتیا ہواور لوگ اسکی بات سن کر متاثر ہوسکیں ایسے مالشیے ایک طرف تو آمر حکمرانوں کے کان بھرتے رہتے ہیں تو دوسری طرف سیاست میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے اپنے حامیوں کو بھی سامنے لانا شروع کردیتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک آمر ساری زندگی اقتدار میں نہیں رہ سکتا جب آمر کی رخصتی کا وقت آتا ہے تو پھر وہی مالشیے قسم کے سیاستدان جانے والے آمر کی جگہ لیکر خود آمر بن جاتے ہیں اور بہت سے مالشیے انہیں گھیر لیتے ہیں۔
اس وقت ہماری سیاست انہی مالشیوں سے بھری پڑی ہے اور انکی دیکھا دیکھی بیوروکریسی میں بھی مالشیے آدھمکے جو سیاستدانوں اور حکمرانوں کی ہر وقت تعریفوں میں وقت گذار کرکوئی نہ کوئی اہم عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اسی لیے پھر انہیں کسی کی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ نوکری پر جائیں یا جاکرموج مستی کرکے واپس آجائیں مختلف صوبوں میں سمیت مرکز میں اہم عہدوں ہر مالشیے تعینات ہیں جو خود کام کرتے ہیں نہ کسی اور ایماندار افسر کو کام کرنے دیتے ہیں اس وقت پنجاب کے وزیراعلی کی ٹیم میں جو افراد شامل ہیں وہ بھی کسی مالشیے سے کم نہیں ہیں اس وقت اگر محکمہ اطلاعات کو ہی دیکھ لیا جائے تو یہاں پر خوش آمدی اور مالشیے قسم کے افسران کی ایک لمبی قطار موجود ہے کرپشن کے کنگ اور انٹی کرپشن کومطلوب افراد اخبارات کو اشتہارات تقسیم کررہے ہیں ڈائریکٹر الیکٹرونک میڈیا کو شائد یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کون سے ٹیلی ویژن چینل میں کون ڈی این ہے نہ اس میں اتنی جرات اور ہمت ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کوئی اچھا فیصلہ کرسکے اسی طرح کا ایک اور سست ڈائریکٹر جو آجکل اشتہارات کے شعبہ میں کام کررہا ہے۔
وہ صرف اپنے دفتر ڈی جی پی آر اس لیے آنے کیی زحمت گوارا کرتا ہے کہ اس نے اے سی چلا کر اپنے ٹھنڈے کمرے میں صوفے پر تکیہ رکھ کرلیٹنا ہوتا ہے جبکہ اس محکمہ میں بعض ایسے مالشیے قسم کے افسران کی بھی بھرمار ہے جو بھرتی ہوکر ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچ گئے اور آج تک لاہور دفتر سے باہر کسی اور شہر میں تعینات ہی نہیں ہوئے یہ وہ محکمہ ہے جو براہ راست خادم اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے ماتحت کام کرتا ہے کیونکہ اس محکمہ کا وزیر ہے نہ مشیر ہے اور نہ ہی کسی کے پاس کوئی اختیار ہے یہاں پر سیکریٹری سے لیکر نائب قاصد تک سبھی اپنی نوکری پکی کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر خوش آمد پرستی میں مصروف ہیں۔
حد تو یہ ہے یہاں پرالیکٹرونکس آلات جن میں کیمرے ،کمپیوٹرز ،موبائل ،فوٹو کاپیئر سمیت دوسرے قیمتی سامان کی خریداری میں اربوں کی کرپشن کرلی گئی جو سامان خریدا گیا وہ آتے ہی خراب ہونے کے بعد کباڑ کی نظر ہوگیاامید ہے کہ راجہ جہانگیر جو ایک منجھے ہوئے اور سمجھدار بیوروکریٹ ہیں اس محکمہ میں موجود مالشیوں سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے اگر وہ بھی انکے سامنے لیٹ گئے تو پھر کہیں سے کوئی عائشہ ممتاز ڈونڈ کر یہاں بھی لانا پڑے گی جو ڈنڈا اٹھا کر سب مالشیوں کی دوڑ لگوادے یہ صرف ایک محکمے کا حال ہی نہیں ہے یہاں پر آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے رہی بات پاکستان تحریک انصاف کے مالشیوں کے حوالہ سے نعروں کی تو وہاں پر بھی مالشیوں کی کمی نہیں ہے عمران خان کے نزدیک صرف وہی ہے جو بہت اچھامالشیا ہو ورکر تو اب دور سے بھی عمران خان کو دیکھ نہیں سکتا گلے ملنے کی تواب بات ہی نہیں رہی۔
تحریر: روہیل اکبر
03466444144