counter easy hit

ماسڑ جی کا پاکستان

Pakistan

Pakistan

تحریر : سجاد گل
کالے بورڈ پر سفید چاک سے لکھ کر ماسٹر جی نے ہمیں بتایا تھا ،پاکستان کا مطلب کیا ،لاالہ الا للہ محمد رسول اللہ، پاکستان ایک عظیم نظریئے کی بنیاد پر معرضِ وجود میںآیا تھا ،یعنی یہ نظریہ کہ مسلمان ایک خدائے حقیقی کے ماننے والے ہیں جبکہ ہندو بہت سے بتوں کے پجاری، لہذا ہم مسلمانوں کے لئے ایک الگ ریاست حاصل کریں گے جس میں مسلمان اللہ اور اسکے رسولۖ کے احکامات کے مطابق آزادی سے زندگی بسر کر سکیں،مجھے یہ بات ایسے یاد ہے جیسے یہ کل کی بات ہو، ماسٹر جی نے ہمیں ایک سوچ میں ڈوبے شخص کی فوٹو اور ایک ان بابا جی کی تصویر جو ہماری کرنسی پر ہے دیکھا کر کہا تھا یہ ہمارے ہیروز ہیں ،جہاںتک مجھے یاد پڑتا ہے ماسٹر جی یہ بھی کہا کرتے تھے کہ قائداعظم نے فرمایاتھا معاشی نظام اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہوگا ،، ماسٹر جی یہ بھی پڑھایا کرتے تھے کہ قائد اعظم نے فرمایا ، پنجابی، سندھی،بلوچی اور پٹھان کی اصطلاحات سے بالاتر ہوکر ہم نے یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں،اسی طرح ٹاٹ پر بیٹھ کر یہ بھی پڑھا تھا کہ مسلکی بنیادوں پر نفرتوں کو پروان چڑھانے کے بجائے دوسروں کی سوچ و فکر کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے آپس میں مہر و محبت سے رہنا ہے۔

ماسٹر جی نے رسول اللہ ۖ کا آخری خطبہ جسے ہم حجہ الوداع کے نام سے جانتے ہیں ہمیں زبانی یاد کروا کر بتایا تھا کہ قائداعظم نے ایک موقع پر کہا تھا کہ رسول اللہ ۖ کے ان الفاظ کو معیار زندگی بنانا ہے کہ ،کسی گورے کو کسی کالے پر،اور کسی کالے کو کسی گورے پر ، کسی عربی کو کسی عجمی پر ،اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کوئی برتری حاصل نہیں،ماسٹر جی نے ہمیں پاکستان کا جو چہرہ دیکھایا تھا ۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔جو آج پاکستان کی صورِت حال ہے، ماسٹر جی کے پاکستان میں اور آج کے پاکستان میں کھلا تضاد نظر آتا ہے،کیا واقعی پاکستان کا مطلب لاالہ الا للہ محمد رسول اللہ ہے، یا یہ دعویٰ ماسٹر جی کی دی تعلیم تک ہی محدود ہے،اس عظیم معنی و مطلب کو آج بھلا دیا گیا ہے،دوقومی نظریہ تو جیسے انڈین کلچر کے صحرا میں دفن ہی ہو گیا ہو،جیسے کل کا ہندو تو ہمارا عدو و دشمن تھا۔

آج گائے کا پجاری ہمارا محسن و اغمخوار ہو ،جیسے کل تو ہمیں اپنے اسلاف اور اپنی تہذیب و تمدن پر فخر تھا اور آج ہم اس دعوے سے شرمندہ و شرمسار ہوں،جیسے کل تو ہم اسلامی نظام معشیت کو تندرست و توانا سمجھتے ہوں ،آج اسے سود اور مغربی نظام کی بیساکھوں کا سہارا دینا لازمی جانتے ہوں،کل تو خان لیاقت علی خان ہاتھ میں قرآن اٹھا ئے چلا چلا کر کہتے بھرتے تھے کہ مسلمانوں بتائو اس کتاب کا ساتھ دو گے یا گائے کے پجاری کا، اور آج ہم اس خوشنما اور دلنشین وعدے سے کیونکر مکرے مکرے نظر آتے ہیں؟کل ماسٹر جی کہا کرتے تھے کہ حاکمیت حاکمِ حقیقی(اللہ تعالیٰ ) کی ہو گی، آج ہم اس عظیم مقصد سے کفر و برات کاا علان کیوں کر رہے ہیں۔

کل پنجابی ،سندھی،بلوچی،اور پٹھان کو ایک دھاگے میں پرو یا گیا تھا ،آج وہ عقدِمقدس کٹی کٹی کیوں نظر آ رہی ہے؟کل مسلکی شعلوں کو مٹانے کے باب باندھے گے تھے ،آج مسلکی بنیادوں کو مضبوط کر کے تقسیم اور گروہ بندی کے اسباق کیوں پڑھائے جا رہے ہیں؟کل جس قرار دادِ مقاصد نے مسلمانوں کی رگوں میں چلتے خون کو گرما کر پاکستان جیسی نعمت سے ہمکنار کیا آج اسی قراردادِ مقاصد کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کھوکھلا کیا جا رہا ہے،کل جن عقائد و مقاصد ، نظریات و افکارات ،سوچ و پندار،کی بنیاد پر اس عظیم خطے کو حاصل کیا گیا تھا آج اسے ہمارے ذہنوں سے کھرج کھرج کر نکالنے کی سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے،آج علامہ اقبال اور قائداعظم کو تو متنازع شخصیات بنا دیا گیا،اور ہندستان کے کنجروں اور مراسیوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہمارے ہیرو وہ جنکی اکثر تصاویر نیم برہنہ لڑکیوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔۔۔غفلت کی انتہا ہو گئی ،بے غیرتی کی حد ہو گئی۔

میں اس تضاد اور اس منافقت پر نظر ثانی کرتا ہوں تو جسم میں اک طوفان سا اٹھ کھڑا ہوتا ہے،اور دماغ میں بغاوت کے جراثیم پنپنا شروع ہوجاتے ہیں، اور یہ بغاوت مجھے انہی سوالات کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتی ہے،اور چینخ چینخ کر سوال کرتی ہے کہ پاکستان کا جو چہرہ ماسٹر جی نے متعارف کروایا تھا وہ جھوٹا تھا؟ ۔۔۔یا۔۔۔آج کا پاکستان اور اس کے حالات و واقعات اور پندار و خیالات فراڈہیں؟پھر یہ بغاوت میرے دماغ پر ہتھوڑے برسا برسا کر کہتی ہے ، یا تو ماسڑ جی والا جھوٹ بند کیا جائے یا پھر آج کے اس فراڈ کے سامنے مضبوط بند باندھا جائے،کیونکہ ان میں ایک لاریب سچائی ہے۔

دوسرا صد فیصدجھوٹ، جیسے آگ اور پانی اکٹھے نہیں رہ سکتے، ایسے ہی سچ اور جھوٹ یک جا نہیں ہو سکتے،۔۔۔اگر۔۔۔یہ دونوں سلسلے ساتھ ساتھ چلتے رہے تو بغاوتیں اٹھ سکتی ہیں آج میرے ذہین میں کل آپ کے ذہین میں اور پھر ہر اس ذہین میں جس جس کے سامنے ماسٹر جی کا پاکستان ہو گا،آج مجھ جیسے کروڑوں پاکستانی ایسی کیفیت سے گزر ہے ہیں جنکے سامنے ایک نہیں دودو پاکستان ہیں ، ایک آج کا شرمسارو شرمندہ پاکستان ، اور دوسرا رفعت کی بلندیوں کو چھوتا عظیم شان و شوکت والا ”ماسٹر جی کا پاکستان”۔

Sajjad Gul

Sajjad Gul

تحریر : سجاد گل
dardejahansg@gmail.com
Phon# +92-316-2000009