تحریر : سید امجد حسین بخاری
گذشتہ دنوں انٹرمیڈیٹ بورڈ کراچی بدعنوانی اور کرپشن کے حوالے سے خبروں کی زینت بنا رہا۔ نااہل اور کرپٹ انتظامیہ نے پیسے لے کر من مانے لوگوں کو اے گریڈ میں ڈگریاں جاری کیں۔ مال بنائو پالیسی کے تحت جتنی زیادہ جیب ڈھیلی کرو گے اتنے ہی زیادہ نمبرز ملیں گے۔محکمہ اینٹی کرپشن کے حکام کے مطابق تادم تحریر اٹھانوے کے قریب کیسز سامنے آئے ہیں جن کے تحت نتائج میں ردو بدل کیا گیا ۔جبکہ کراچی انٹر بورڈ کے ڈپٹی کنٹرولر امتحانات دبیر احمد نے اپنے ویڈیو بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے نتائج کے رو دبدل میں کروڑوں روپے بطور رشوت وصول کئے جو کہ ایک رشتہ دار کے اکائونٹ میں ہیں۔ دبیر احمد نے ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے۔واضح رہے کہ 7اکتوبر 2015ء کو چئیرمین انٹر بورڈ کراچی اختر غوری نے ایک اخباری بیان میں اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ سابقہ ادوار میں نتائج24کروڑ روپے میں فروخت کئے گئے تھے۔تعلیم کا یہ معیار کراچی یا اندرون سندھ تک ہی محدود نہیں بلکہ ملک بھر میں ایسے نتائج معمولی بات ہے۔
نرسری کے نتائج سے لے کر ماسٹر تک ہر جگہ دولت ، رعب و دبدبہ کام آتا ہے۔ اس میں محض افراد ہی نہیں بلکہ سکول، کالجز ، تعلیمی بورڈز اور یونیورسٹیز بھی شامل ہیں۔ گذشتہ دنوں میڈیا پر گوجرانوالہ بورڈ کی ایک طالبہ نورین کوثر نے نویں جماعت کے امتحانات میں 505میں سے 504نمبرز حاصل کرکے ریکارڈ قائم کیا۔ میڈیا پر اس بارے میں بریگنگ نیوز چلیں سوشل میڈیا بھی پیچھے نہ رہا دھڑا دھڑ مبارکباد کی پوسٹیں کی جانے لگیں۔راقم کو جب اس خبر کی اطلاع ملی اتفاقاََ اس وقت کچھ ماہرین تعلیم سے چند امور پر گفتگو کر رہا تھا۔ چینل نے اس طالبہ کی ریکارڈ کارکردگی کی خبر نشر کی تو تمام ماہرین کی آنکھیں حیرت اور تذبذب سے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔تمام ماہرین پنجاب ایجو کیشن فائونڈیشن میں اعلیٰ عہدوں پر ہیں اس لئے ان کے نام اس تحریر میں شائع نہیں کئے جا رہے۔
ماہرین تعلیم کے مطابق ریاضی کے مضمون کے علاوہ کسی بھی مضمون میں سو فیصد کارکردگی دکھانا یا اس کارگردگی کو پورے نمبر دینا ناممکن ہے۔یہاں ایک بات اور بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ میٹرک اور انٹر کے امتحانات کا ستر فیصد حصہ معروضی سوالات پر مشتمل ہوتا ہے کس کی وجہ سے نقل کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نگران جتنی بھی نگرانی کرلے اس کو کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا ہے جبکہ محکمہ تعلیمی کے جانب سے بیشتر حصہ معروضی کرنے کی وجہ رٹا کلچر کا خاتمہ بتائی گئی ہے مگر میری نظر میں اس وجہ سے رٹا کلچر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہر سال اکثر معروضی سوالات دہرائے جاتے ہیں جبکہ مارکیٹ سے امدادی کتب با آسانی دستیاب ہیں جن پر موجود پیپرز کو طلبہ و طالبات رٹے کے ذریعے تیار کر لیتے ہیں اور معذرت کے ساتھ ہمارے امتحانی بورڈز کے پیپرز تیار کرنے والے اکثر ممتحن بھی انہیں پیپرز کی مدد سے ہر سال سوالیہ پرچے تیار کرتے ہیں۔
محکمہ تعلیم اگر اس کی تحقیق کرے تو کئی چشم کشا انکشافات سامنے آسکتے ہیں۔سارا امتحانی اور تعلیم نظام بگاڑ کا شکار ہے جبکہ اس پر نظر رکھنے والے ماہرین بھی محض مراعات کے حصول میں مگن ہیں۔طلحہ ادریس نصاب سازی کرنے والے ایک نجی ادارے سے منسلک ہیں ان سے جب نہم کے موجودہ نتائج کے بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ رٹا کلچر اور معروضی طریقہ امتحانات دولت اور اقربا پروری ہی معیار تعلیم کی گراوٹ کا باعث ہیں۔ امداد اللہ ایجوکیشن کے محقق ہیں۔ نطام تعلیم اور طریقہ تدریس پر گہری نظر رکھتے ہیں،وہ بھی تعلیمی تحقیق کے ایک نجی ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں ان کے مطابق سفارش ، اثر ونفوس ، پیپرز کا آئوٹ ہوجانااور امتحانی نظام میں خرابیاں تعلیمی نظام کو خراب کر رہے ہیں۔
طلبہ کو مشقی سوالات اور رٹا کلچر سے باہر نکال کر انہیں تعلیم دی جائے حکام طریقہ امتحانات اور طریقہ تدریس پر نظر کریں۔ قارئین ملتان بورڈ میں 505 کل نمبروں میں ایک طالبعلم نے 505 نمبر حاصل کئے اور گوجرانوالہ کی ایک طالبعلم نے 505 میں سے 504 نمبر حاصل کئے۔ ہر گلی میں ہر اسکول نے 90فیصد اور 95فیصدسے زائد نمبروں والے بچوں کے بینرز معہ تصاویر لگائی ہیں۔ اس ملک میں حافظ پیدا کیے جارہیں چاہے وہ دینی مدارس ہوں یا پرائیویٹ اسکولز جن کا تخلیق کاری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ایسے میں جن بچوں کے نمبرز کم ہیں وہ ایک نفسیاتی مسئلہ کے شکار ہیں کل بہت سے بچوں کے رونے اور افسردہ ہونے کی خبر سنی ہے اللہ نہ کرے یہ تعلیمی رجحان بچوں میں مایوسی کا سبب بنے۔طلبہ کے اتنے زیادہ نمبرز لینا کسی بھی صورت میں ممکن ہی نہیں اردو ، انگریزی میں مکمل نمبرز دینا کسی بھی طرح سے ممکن نہیں۔ میں نے گوجرانوالہ بورڈ کے نتائج میں ریکارڈ نمبرز لینے والی طالبہ کے حوالے سے اپنے ذرائع سے تحقیق کی تو مجھے باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ طالبہ کے والد اور والدہ دونوں سرکاری ہائی سکولز میں صدر معلمین ہیں۔ اس طالبہ کی ایک بہن اور بھائی پہلے بھی میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں بورڈ سے اول پوزیشنز حاصل کر چکے ہیں ایک بہن کنگ ایڈورڈ میں میڈیکل کی طالبہ ہیں اور وہاں ان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں۔
میرے ذرائع نے شک کی بنیاد پر بتایا ہے کہ مذکورہ طالبہ کے والدین گوجرانوالہ بورڈ کے ممبران بھی ہو سکتے ہیں لیکن یہ بات یقینی ہے کہ وہ میٹرک کے نتائج پر اثر انداز ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے پنجاب گورنمنٹ اور محکمہ تعلیم کے حکام کو اس بات کی چھان بین کرکے ملوث افراد کے خلاف بھر پور کارروائی کرنی چاہئیے۔ مال و دولت اگر ڈگری کے حصول کی ضمانت ہو تو ہزاروں ہو نہار طلبہ وطالبات کسی بدر پر جائیں گے۔جب معیار تعلیم بہتر اور طریقہ امتحانات شفاف ہوتا ہے تو علم کے دئیے جھونپڑیوں میں روشن ہوتے ہیں۔ گدڑیوں کے لعل بھی علم کے زیور کو زیب تن کرتے ہیں جس کی واضح مثالیں چکوال کی خانہ بدوش لڑکی نرگس گل کی میڑک کے امتحان میں نمایاں کارکردگی، تندرو لگانے والے طالب علم کا اول پوزیشن لینا اور ہر سال مختلف بے بس ، مجبور اور لاچار والدین کے بیٹے اور بیٹیوں کی اعلیٰ کاکردگی ہیں۔
لیکن پنجاب کے تعلیمی بورڈز کی جانب سے اس قدر زیادہ نمبرز دینا بورڈز کے طریقہ امتحانات کی شفافیت اور کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔ ماہرین تعلیم ششدر ہیں کہ یہ کیوں کر ممکن ہوا۔کوئی بھی طالب علم جتنا بھی ذہین کیوں نہ ہو اس کے لئے سو فیصد کارکردگی دکھانا ممکن ہی نہیں۔
پڑھو پنجاب کا نعرہ لگانے والوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نتائج کا جائزہ لیں اور اس بات کی تحقیق کریں کہ کہیں انٹر بورڈ کراچی کی طرح پنجاب میں بھی تو کہیں ڈگریوں کی لوٹ سیل تو نہیں لگی ہوئی۔ علم کے دیے فروخت کرنے کی بجائے ان گھروں میں جلنے چاہیں جو واقعی اس کی روشنیوں کے حق دار ہیں۔
تحریر : سید امجد حسین بخاری