اسلام آباد(ایس ایم حسنین)سینئر صحافی مطیع اللہ جان جوکہ گزشتہ روز اسلام آباد کے سیکٹر جی سکس میں اپنی زوجہ کے سکول کے سامنے سے اغوا کرلیے گئے تھے۔ رات گئے اپنے گھر واپس پہنچ گئے ہیں۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق انھیں اغوا کاروں نے فتح جنگ کے قریب چھوڑا ہے۔ تفصیلات کے مطابق منگل کی صبح سینئر صحافی مطیع اللہ جان کو وفاقی دارالحکومت کی ایک مصروف گلی سے سیاہ وردیوں اور سول کپڑوں میں ملبوس ایک درجن کے قریب افراد کی طرف سے اغوا کیے جانے کی واردات کی ایف آئی آر تھانہ آبپارہ میں درج کر لی گئی تھی۔ مطیع اللہ جان کے بھائی کی طرف سے دی گئی درخواست پر درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ مطیع اللہ جان کو صبح گیارہ بجے فیڈرل گورمنٹ گرلز پرائمری سکول جی سکس ون تھری اسلام آباد سے سیاہ وردیوں میں ملبوس افراد نے اغوا کر لیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ افراد جن کی تعداد ایف آئی آر میں بیان نہیں کی گئی ایک ڈبل کیبن پولیس وین جس پر پولیس کی ہنگامی لائٹیں بھی لگی ہوئی تھی سمیت کچھ کاروں میں سوار تھے۔ ایف آئی آر میں لکھا گیا تھا کہ یہ ساری کارروائی سکول کی عمارت کے باہر نصب سی سی ٹی وی کیمروں میں فلم بند ہو گئی ہے۔ محمد حنیف اے ایس آئی تھانہ آبپارہ کی طرف سے درج کی جانے والی اس ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ واقع کی تفصیلات سے تھانہ ایس ایچ او اور پولیس کے دیگر حکام کو فوری طور پر آگاہ کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل مطیع اللہ جان کی اہلیہ نے میڈیا کو بتایا تھا کہ وہ منگل کی صبح ساڑھے نو بجے انھیں سیکٹر جی سکس میں واقع اس سرکاری سکول تک چھوڑنے آئے تھے جہاں وہ پڑھاتی ہیں۔ مطیع اللہ کی اہلیہ کے مطابق انھیں سکول کے سکیورٹی گارڈ نے مطلع کیا کہ ان کی گاڑی سکول کے باہر تقریباً ساڑھے گیارہ بجے سے کھڑی ہے۔ مطیع اللہ جان کی اہلیہ کے مطابق ’گاڑی کے شیشے کھلے تھے، گاڑی کی چابی اور ان کے زیر استعمال ایک فون بھی گاڑی کے اندر ہی تھا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’جب میرا اپنے شوہر سے رابطہ نہیں ہو سکا تو میں نے فوراً پولیس کو فون کیا اور کچھ دیر بعد پولیس موقع پر پہنچی۔‘ سکول میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سوا گیارہ بجے کے قریب تین گاڑیوں میں سوار نصف درجن سے زیادہ افراد مطیع اللہ کو زبردستی ایک گاڑی میں بٹھا رہے ہیں اور اس دوران مطیع اللہ جان اپنا فون بھی سکول کے اندر اچھال دیتے ہیں جسے ایک باوردی مسلح شخص سکول کے اندر موجود افراد سے حاصل کر لیتا ہے۔ مطیع کی اہلیہ نے یہ بھی بتایا کہ ’ایک موبائل فون سکول کے احاطے کے اندر آ کر گرا تھا جسے ایک دوسری ٹیچر نے اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وردی میں ملبوس ایک دراز قد شخص آیا اور فون مانگ کر واپس لے گیا۔ یہ سب اتنا جلدی میں ہوا کہ میں اس معاملے کو سمجھ ہی نہ سکی۔‘
تھانہ آبپارہ میں تعینات ایک پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ تھانے کی پولیس نے مطیع اللہ جان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر لی ہے تاہم اس میں چہرے ابھی واضح نہیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس فوٹیج کا بغور جائزہ لے کر ہی کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ فوٹیج میں نظر آنے والے پولیس اہلکاروں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو میں بعض پولیس اہلکار بھی دکھائی دے رہے ہیں جنھوں نے بظاہر انسداد دہشت گردی فورس کی وردیاں پہنی ہوئی ہیں تاہم پولیس افسر کا کہنا تھا کہ اس یونیفارم کی بنیاد پر پولیس اہلکاروں کے تھانے یا تعیناتی کا درست اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔
خیال رہے کہ مطیع اللہ جان کی بدھ کو سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے مقدے میں پیشی تھی۔ گذشتہ بدھ کو پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے انھیں ایک متنازع ٹویٹ پر نوٹس جاری کیا تھا۔
آسلام آباد ہائی کورٹ کا نوٹس
قبل ازیں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سینئرصحافی مطیع اللہ جان کو بازیاب کرانے کا حکم دیا تھا اور متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ اگر مطیع اللہ کو بازیاب نہیں کرایا جا سکا تو فریقین کل ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔
خیال رہے کہ غیرجمہوری قوتوں پر تنقید کے لیے مشہور پاکستانی صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد سے منگل کی صبح اغوا کیا گیا۔ ان کی گاڑی سیکٹر جی 6 کے اس سکول کے باہر کھڑی ملی ہے جہاں وہ اپنی اہلیہ کو چھوڑنے کے لیے آئے تھے۔
بعد میں ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں مغوی کی بازیابی اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی استدعا کی گئی۔ یہ درخواست مغوی کے بھائی کی طرف سے دائر کی گئی ہے اور اس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مطعیع اللہ جان سینئیر صحافی ہیں اور وہ حکومتی اقدامات کے ناقد ہیں۔ اس درخواست میں وزارت داخلہ، وزارت دفاع اور اسلام آباد پولیس کو فریق بنایا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر اور آئی جی پولیس کو نوٹس جاری کیا گیا ہے۔
عدالتی نوٹس سے کچھ دیر پہلے وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے پریس کانفرنس سے خطاب میں مطیع اللہ جان کے اغوا کیے جانے کی تصدیق کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی ان کے پاس اس واقعے کے حوالے سے تفصیلات موجود نہیں ہیں ’لیکن یہ تو طے ہے کہ ان کو اغوا کیا گیا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ مطیع اللہ جان کے اغوا کی خبر ملنے کے بعد انھوں نے وزیر داخلہ اعجاز شاہ سے رابطہ کیا تاہم وہ اپنے بھائی سے ملنے ہسپتال جا رہے تھے۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ ’ہم پوری کوشش کریں گے کہ جلد از جلد کم ازکم ہمیں یہ پتا چل جائے کہ وہ کہاں پر ہیں اور کیا کیا تدابیر اختیار کی جائیں کہ جس سے انھیں بازیاب کیا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ یہ حکومت کا فرض ہے اور حکومت اپنا فرض پوری طرح سے ادا کرے گی‘۔
انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے بھی ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پیغام میں اس خبر کو تشویشناک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ انھوں نے آئی جی اسلام آباد سے رابطہ کیا ہے۔
خبر: مطیع اللہ جان کو اغوا کار فتح جنگ کے قریب چھوڑ گئے، بھائی کیساتھ گھر کیلیے روانہ
وہ تمام صحافی جو دوپہر سے پاکستانی اداروں کیخلاف ہرزہ سرائی کررہے تھے، اب ڈوب مریں
ان بیغیرتوں کو موقع چاہئیے ہوتا پاکستان کے اداروں کیخلاف بھونکنے کیلیے
اس ڈرامے کا ڈراپ سین آنا ابھی باقی ہے