تحریر:اصغر علی مبارک: چیف جسٹس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایسے بہت سے کاموں کی ابتدا کر رہے ہیں جو ان سے پہلے کسی نے نہیں کئے اور ہمارے ملک میں لوگوں کے لئے حیرانی کا باعث ہیں۔ مثال کے طور پر سنئیر صحافیوں سے شاہد مسعود کے معاملے میں کنسلٹیشن یا مشورہ لینا ۔زیادہ تر لوگوں کے لئے اس بات کو سمجھنا مشکل ہے لیکن جو لوگ مغربی ممالک میں رہتے ہیں ان کے لئے اس بات کو سمجھنا نسبتا آسان ہے ۔ڈاکٹر شاہد مسعود کا معاملہ کوئی کریمنل یا سول جرم نہیں بلکہ یہ اخلاقیات کا مسئلہ ہے ۔ ان کو یا کسی صحافی کو غلط خبر دینے کی وجہ سے کسی بھی قسم کی سزا کی صورت میں وہ ایک ریفرنس بن سکتی ہے جو آئین میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو متاثر کرنے کے علاوہ ملک بھر کے جرنلسٹ کے لئے ایک نیا پرابلم کھڑا کرسکتی ہے ۔
اس سزا کے بعد جس کا دل چاہے گا اس کا فائدہ اٹھا کر صحافیوں کو تنگ کرسکتا ہے۔ کہ آپ کی خبر غلط ہے آپ پر بھی اسی سزا کی مثال کے پیشِ نظر مقدمہ قائم کیا جارہا ہے وغیرہ۔یاد رکھیں صحافی خبر لاتا ہے اور بعض اوقات حالات و واقعات کی بنیاد پر اپنا تجزیہ دیتا ہے۔ جو بھی خبر پیش کی جاتی ہے وہ کبھی سو فیصد درست کبھی اسکا کچھ حصہ درست اور کبھی بالکل غلط بھی ہوسکتی ہے ۔ اس صورت میں اس کی تردید اور معذرت بھی شائیع کردی جاتی ہے ۔اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں سب کچھ سو فیصد درست ہی ہو یہ ضروری نہیں۔ اسلئے فریقین کو بلا کر رائے لینے میں کوئی حرج نہیں ۔مغربی ممالک میں بہت سے معاملات میں فریقین سے کنسلٹیشن کی جاتی ہے۔ حتی کہ بعض قوانین اور پالیسیز کو بنانے سے پہلے ماہر قوانین سے کنسلٹ کرنا عام بات ہے۔
یاد رہے کہ پچھلے دنوں ملتان بار کے مسئلے کو بھی کئی بار ہنگاموں کے بعد وکلاء سے رائے لینے کے بعد ہی حل کیا گیا تھا ۔حتی کے برطانیہ میں اگر کسی رہائشی علاقے میں کوئی بار بھی کھولنا ہو کوئی مسجد یا چرچ کی یا کمیونٹی سینٹر کے پروجیکٹ بنانے سے پہلے اس علاقے کے لوگوں سے رائے لی جاتی ہے کہ اگر کوئی اعتراض ہو تو سامنے آئے ۔البتہ یہ ضرور ہے کہ ہمارے ملک کے لئے شاید یہ روایت کچھ نئ ہو ۔لیکن اچھی روایات کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہی اچھی قوموں کی نشانی ہے ۔