لاہور (ویب ڈیسک) ان دنوں مولانا فضل الرحمان مفاد پرست اپوزیشن کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں۔ انہیں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ خود مولانا بھی ذوق شوق سے استعمال ہوئے چلے جا رہے ہیں۔ نامور کالم نگار محمد اکرم چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ ان کی ڈوریاں ہلانے والوں کو بھی اسلام آباد سے دوری کا غم کھائے جا رہا ہے۔ وہ کسی بھی طرح اسلام آباد کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ مزاحمتی سیاست دراصل اقتدار چھن جانے کے غم میں لڑی جا رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کو مذہبی حلقوں میں اثر و رسوخ کی وجہ سے ساتھ ملایا گیا ہے۔ چونکہ مذہب کے ساتھ لوگوں کی جذباتی وابستگی ہے اس معاملے میں سیاسی وابستگی کو بھی نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور مولانا فضل الرحمان اس کام میں ماہر ہیں۔مخصوص علاقوں سے مخصوص کراوڈ کا اکٹھا کرنا ان کے لیے آسان ہے ان کی اس خوبی کو دیکھتے ہوئے مفادات کی خاطر اکٹھے ہونے والی دو بڑی سیاسی جماعتیں جمعیت علماء اسلام کو ایک مزاحمتی سیاسی جماعت کے طور پر عوام کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ دونوں سیاسی جماعتیں اس مقصد میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن یہ بات طے ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے حصول اقتدار کے لیے اس مزاحمتی عمل کا حصہ بن کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ ان کے اس فیصلے کا نقصان ملک کی تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کو اٹھانا پڑے گا اور یہ نقصان براہ راست عوام کی طرف سے ہو گا۔ عوام پہلے ہی مذہبی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی سے ناخوش ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے لیے سیاست ہر گذرتے دن کے ساتھ مشکل تر ہوتی جا رہی ہے اسکی بنیادی وجہ ہر وقت اقتدار میں رہنے کی کوشش ہے اس وقت عوامی سطح پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان یہ سارا کام کسی کے اشارے پر کر رہے ہیں۔ ان حالات میں مذہبی جماعتوں کی ساکھ کا خراب ہونا فطری امر ہے۔ اس نقصان کے سب سے بڑے ذمہ دار مولانا فضل الرحمان ہی سمجھے جائیں گے۔ ان کی پارلیمانی نظام میں اس سے بڑی خدمت نظر نہیں آتی ہے کہ وہ ہر حکومت کو خدمت کا موقع دیتے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی ان کی خدمت کرنے والا نہیں ہے اور نہ ہی انہیں اسلام آباد میں اسلام کا کام کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ ان حالات میں جب خدمت کے ذرائع ختم ہو گئے اور اسلام آباد میں اسلام کی باتوں کا موقع بھی نہیں مل رہا تو انہوں نے اسلام پسند عوام کو ساتھ ملا کر ذاتی مفادات کے حصول کے لیے مہم جوئی شروع کر دی ہے۔ کیا مولانا یہ بتانا چاہیں گے کہ جب کب وہ حکومت میں رہے ان معصوم لوگوں کے لیے پارلیمنٹ میں کتنی مرتبہ آواز اٹھائی، جن لوگوں کو اسلام کارڈ استعمال کر کے وہ سڑکوں پر لا رہے ہیں حکومتوں کا حصہ ہوتے ہوئے ان کا طرز زندگی بلند کرنے کے لیے انہوں کیا اقدامات اٹھائے، جن معصوموں کو سڑکوں پر لا رہے ہیں ان کے مسائل کے لیے جب کب آواز بلند کی ہے۔ اگر لمبا عرصہ حکومتوں میں رہنے کے باوجود مولانا فضل الرحمان ان لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر سکے تو انہیں مذہب کے نام پر استعمال کرنے کے بجائے اپنی کارکردگی ان کے سامنے رکھیں اور اس کارکردگی کی بنیاد پر انہیں سڑکوں پر لا کر دکھائیں۔ مذہب کا نام استعمال کرتے ہوئے طالب علموں کو سیاسی جلسوں میں اکٹھا کرنا منفی سیاست نہیں تو اور کیا ہے۔جہاں تک تعلق ان کے ملین مارچ کا ہے ان دنوں جس قسم کے شدید ذہنی دباؤ کا وہ شکار ہے وہ ملین مارچ سمیت کچھ بھی کر سکتے ہیں وہ اس فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اس لیے حکومت کو ان کے اس اعلان کو سنجیدگی سے دیکھنا ہو گا۔ وہ ملین مارچ کریں گے۔ انکے ساتھ مریم نواز صاحبہ بھی فیصلہ کر چکی ہیں کہ وہ اپنے بڑوں کی کرپشن کو بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گی۔ یہ مہم بظاہر جمہوریت کی بالادستی کے لیے ہو گی لیکن اسکا اصل مقصد اپنے اپنے بڑوں کی کرپشن پر پردہ ڈالنا اور انہیں بچانا ہے۔ مولانا اور مریم کا اتحاد مفادات کے تحفظ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے اس لیے وہ حصول اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ کیا ان کی اس مشق کا پاکستان کوفائدہ ہو سکتا ہے۔ بالکل نہیں بلکہ یہ ساری مہم جوئی پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائے گی۔ تباہ حال ملکی معیشت کوبہتر کرنے کی کوششوں کو دھچکا پہنچے گا۔ امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کا خطرہ پیدا ہو گا۔ بیرونی دشمنوں کو پاکستان میں مداخلت کا موقع ملے گا۔ بیرونی سرمایہ کاروں میں عدم تحفظ پیدا ہو گا۔ ہمارے دشمنوں کو کارروائیوں کا موقع ملے گا۔ پاکستان کو ایران، افغانستان اور بھارت کی طرف سے بے پناہ مسائل کا سامنا ہے ان مشکل حالات میں مولانا فضل الرحمان اور ان کے اتحادیوں کی کرپشن کے شہنشاہوں کو بچانے اور دوبارہ اسلام آباد میں ڈیرے ڈالنے کے لیے سڑکوں پر آنا کسی بھی طور ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔ یہ ساری تحریک شخصیات کو بچانے اور ملک کوکمزور کرنے کے لیے ہے۔ ایسی مفاد پرست سیاسی تحریکوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے نہ ہی ایسی سیاست کی ملک میں کوئی جگہ ہے۔ اب صرف تعمیری سیاست ہو گی۔ لوٹ مار، کرپشن، منی لانڈرنگ اور پیسہ بنانے کی سیاست دفن ہو چکی ہے اب حقیقی معنوں میں ملک و قوم کی خدمت کی سیاست کا دور شروع ہوا چاہتا ہے اگر مولانا ذاتی خدمت کے بجائے ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو وہ مستقل میں کہیں نظر آ سکتے ہیں۔ اگر وہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ سزا یافتہ لوگوں کا ساتھ دینا ہے تو یہ ان کی مرضی ہے لیکن ایسی سیاست کا کوئی مستقبل نہیں جیسا کہ مولانا فضل الرحمان کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں ہے۔