مولانا فضل الرحمن نے 2002ء میں انڈیا کا دورہ کیا جس میں اس نے انڈین وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملاقات میں کشمیر کو ” علاقائی تنازع ” قرار دے دیا۔ جبکہ پاکستان پہلے دن سے دو قومی نظریہ ( مسلم قومیت ) کی بنیاد پر کشمیر کو انڈیا سے الگ سمجھتا ہے اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے کا تقاضا کرتا ہے۔ کشمیر کو ” اسلام ” کی بنیاد پر انڈیا سے الگ سمجھتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ فضل الرحمن نے اسکو مذہبی تنازعے کے بجائے ” علاقائی تنازع ” قرار دے کر پاکستان کے برسوں پرانے موقف کو زبردست دھچکا دیا۔
اسی دورے میں اس نے مسلمان دشمن انڈین تنظیم آر ایس ایس کے لیڈر سے خفیہ ملاقات کی اور اس ملاقات میں انڈیا کو پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانے پر زور دیا۔ یہ عین انڈین موقف ہے۔ وہ ہمیشہ سے اسی پر زور دیتے ہیں کہ کشمیر پر بات کرنے کے بجائے ہمیں باہمی تجارت کو فروغ دینا چاہئے جبکہ پاکستان کا موقف ہے کہ جب تک کشمیر کا تنازع حل نہیں ہوتا باہمی تجارت وغیرہ کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس ملاقات میں مولانا نے آر ایس ایس کی مسلمان دشمن پالیسیوں پر سوال تک نہیں کیا۔
دورے سے واپسی کے دوران اس نے اپنا متنازع ترین بیان دیا کہ کشمیری مجاہدین عوام اور ریاست پر دہشت گردانہ حملے کر رہے ہیں۔ یہ بیان کشمیری مجاہدین کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے جیسا تھا۔ مولانا کا یہ مہلک بیان انڈیا سمیت بین لاقوامی میڈیا پر چھایا رہا۔
جیسے ہی جمہوری دور آیا مولانا فضل الرحمن نے کشمیر کمیٹی کا چیرمین بننے کا مطالبہ کیا جس کو پورا کیا گیا۔ یاد رہے کہ کشمیری کمیٹی پاکستان کی سب سے مہنگی کمیٹی ہے جسکا کام کشمیر ایشو کو پاکستان کےا ندر اور عالمی برادری کے سامنے اجاگر کرنا ہے۔
مولانا نے اس ایشو کے لیے کتنا کام کیا اس کا اندازہ اپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ مولانا کے چیرمین بننے کے کچھ عرصے بعد اقوام متحدہ نے کشمیر کو اپنے متنازعہ ایشوز کی فہرست سے ہی نکال دیا اور مولانا اس پر خاموش رہے۔
پاکستانی میڈیا سے یہ ایشو تقریباً غائب کر دیا گیا اور مولانا اس پر خاموش رہے۔
انڈین علمائے دیوبند نے کشمیر کو انڈیا کا حصہ قرار دیتے ہوئے وہاں جہاد کو حرام قرار دیا اس پر بھی مولانا خاموش رہے حالانکہ مولانا خود بھی دیوبند مسلک کے بہت بڑے حصے کی ترجمانی کرتے ہیں۔
اور سب سے خوفناک بات کہ پچھلے چند سال سے کشمیر میں انڈیا بہت تیزی سے ہندوؤں کی آبادکاری کر رہا ہے جس کے بعد لداخ اور جموں میں کشمیری مسلمان اقلیت کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ مولانا نے بطور چیرمین کشمیر کمیٹی اس پر ابھی تک ایک لفظ نہیں کہا۔ اس کے نیتجے میں اگر آج انڈیا پاکستان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے وہاں انتخاب کروا دے تو غالب ہندو اکثریت کی بدولت جیت جائیگا۔
انڈیا نے مقبوضہ کشمیر میں دھڑا دھڑ ڈیم بنائے مولانا ان پر بھی خاموش رہے جبکہ انڈیا پاکستان کے گلگت بلتستان کے علاقوں میں تعمیرات پر اعتراضات کر رہا ہے۔
پچھلے چند سالوں کے دوران کشمیریوں کو اتنا مارا گیا کہ شکار کرنے والی پیلٹ گنوں سے ان کا شکار کیا گیا مولانا نے اس پر بھی عالمی برادری کے سامنے کوئی آواز نہیں اٹھائی۔چند دن پہلے ایک صحافی نے سوال کیا کہ جناب آپ نے کشمیری پر اتنے سالوں کے دوران کمیٹی کے صرف 8 اجلاس طلب کیے ہیں جو ڈھٹائی سے ہنس پڑے اور اس سوال کو قومی یکجہتی پر حملہ قرار دیا۔2015ء میں ایک سے زائد کشمیری لیڈروں نے مولانا کو کشمیر کمیٹی سے فارغ کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کو نواز شریف نے مسترد کر دیا۔
سچائی یہ ہے کہ مولانا کی سیاسی سرگرمیاں اور تمام تر تگ و دو صرف اور صرف لبرل قوتوں کو بچانے تک ہی محدود ہے مثلاً
ختم نبوت والی ترمیم میں معاؤنت،
اللہ اور رسولﷺ کے اعلانیہ دشمن، پاکستان کو لبرل بنانے کا اعلان کرنے والے اور گستاخان رسول کے پشت پناہ نواز شریف کی معاؤنت،
پاکستان لوٹ کرکھا جانے والے اور سندھ میں قبول اسلام پر پابندی لگانے والے آصف زرداری اور نواز شریف کو متحد کرنے کی تگ و دو۔
پاکستان میں الحاد کے لیے کام کرنے والے اسفند یار ولی کو اپنا قدرتی اتحادی قرار دینا۔
آپ نوٹ کیجیے گا کہ پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف جو لائن مشہور زمانہ گستاخان رسول اور ملحدین کی ہوتی ہے من و عن وہی چند دن بعد مولانا کی زبان پر ہوتی ہے۔
مولانا کی ایک عجیب و غریب صفت یہ بھی ہے کہ آج تک کبھی درست سمت میں کھڑے نظر نہیں آئے،
مثلاﷺ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن، افغانیوں کے انخلاء، فاٹا کے انضمام اور پاک افغان سرحد پر باڑ پر اور کالاباغ ڈیم پر۔
آج تک ان کی زبان سے کسی نے کوئی کلمہ خیر تک نہیں سنا،
بلکہ آج کسی نے ان کی زبان سے “پاکستان زندہ باد” کا نعرہ تک نہیں سنا۔
آج مولانا فضل الرحمن اپنے بیٹے کو سپیکر لگوانا چاہتے ہیں، پندرہ سال سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں، لیکن جب انتخاب میں عوام سے جوتے پڑے تو پاکستان کو غیر اسلامی اور غلام ریاست قرار دے کر یوم آزادی نہ منانے کا اعلان کیا۔
جامعتہ الاظہر جیسے سیکولر مدرسے کے فارغ التحصیل مولانا فضل الرحمن پاکستانی سیاست کا بدترین کردار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
تحریر شاہدخان