لاہور (ویب ڈیسک ) ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔کرسی یا اقتدار کا نشہ ایسا ہے کہ کچھ لوگ اسے پانے کے لیے کسی حد تک بھی چلے جاتے ہیں۔خیر مولانا صاحب کا معاملہ الگ ہے۔ حالیہ الیکشن کے نتائج مولاناصاحب نے پہلے دن سے قبول کرنے سے انکار کر دیے تھے۔ انہوں نے سبھی پارٹیوں کا الائنس بنا کر موجودہ حکومت کے سامنے دھرنا دینے اور انتخابات کے نتائج قبول کرنے سے بھی انکار کرنے کی کوشش کی۔ کسی حد تک اپوزیشن نے مولانا کا ساتھ دیا مگر لانگ مارچ اور دھرنا جیسی کسی بھی تدبیر پر عمل پیرا ہونے سے کترا گئے۔اپوزیشن میں سے ہر جماعت نے الیکشن نتائج کو چیلنج کرنے کا اظہار کیا اور میڈیا کے سامنے دعوے بھی کیے۔اسلام آباد لاک ڈاﺅن ہونے کی بھی باتیں ہوئی اور حکومت کے خلاف گریٹ الائنس بننے کی بھی مہم چلائی گئی مگر ایک ایک کر کے سبھی پارٹیاں خاموش ہوتی گئیں۔مگر تن تنہا میدان میں کھڑے مرد مجاہد مولانا فضل الرحمٰن ہی ہیں جو کل بھی اپنے موقف پر قائم تھے اور آج بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔مولانا صاحب کبھی زرداری کو منانے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی نواز شریف کو کہ آئیں ایک ہو کر حکومت کا تختہ الٹیں مگر لفظی تسلیوں کے علاوہ انہیں کہیں سے کچھ بھی نہیں ملتا۔ایک انٹرویو میں مولانا صاحب نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں نئے الیکشنز کی اشد ضرورت ہے اور یہ الیکشن جتنا جلدی ہو جائیں اتنا بہتر ہیں اور یہی ملک کے حق میں بہتر ہے۔خاتون صحافی نے سوال کیا کہ الیکشن کتنا جلدی ہونے چاہئیں تو مولانا صاحب کا جواب تھا کہ بہت جلدی آپ یہ سمجھ لیں کہ میرا اور آپ کا یہ انٹرویو بھی عوام کے سننے سے قبل الیکشن ہو جانے چاہئیں۔ دوبارہ الیکشن ہونے کی خواہش کب تک پوری ہوتی ہے۔