تحریر : سید انور محمود
رضا ربانی کو سینٹ کے انتخابات میں چیرمین سینٹ کی سیٹ پر بلامقابلہ کامیابی بہت بہت مبارک ہو لیکن ساتھ ہی اُن کے ساتھ ایک ہمدردی بھی کرنی ہے کہ وہ اور اُنکی جماعت جس قدر زیادہ طالبان دہشت گردوں کے مخالف ہیں اُنکے ساتھ ہی منتخب ہونے والے سینٹ کےڈپٹی چیئرمین جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفورحیدری تن من دھن سے طالبان دہشت گردوں کے حمایتی ہیں۔ عبد الغفور حیدری کو پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن) سمیت تمام جماعتوں کی حمایت حاصل تھی ۔ہمارئے ملک کے سیاست دانوں میں دو خصوصیات موجود ہیں، پہلی لوٹا کریسی اور دوسری گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا، لوٹاکریسی میں عام طور پر سیاسی جماعتوں کےسربراہ نہیں ہوتے لیکن گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں یہ دیر نہیں کرتے اور خاصکر جب ان کے مفادات سامنے ہوں۔2008ء کے انتخابات کے بعد سےآصف زرداری اور نواز شریف کے مفادات ایک جیسےہی ہیں اسلیے یہ دونوں ایک دوسرئے سےبہت مخلص بنے ہوئے ہیں، سینٹ کے حالیہ الیکشن میں آصف زرداری اور نواز شریف علامہ اقبال کے شعر پر پورا پورا عمل کررہے تھے کہ ایک چیرمین سینٹ کے نام پر دونوں ہی متفق ہوگئے اورپھر نہ کوئی حکومت رہی اور نہ کوئی اپوزیشن، سوائے اسکے کہ آصف زرداری پنجاب میں سینٹ کی نشست پر ندیم افضل چن کو لانا چاہتے تھے لیکن نواز شریف اسکے لیئے تیار نہ ہوئے۔ آیئے سیاست کے گروُ اور توڑ جوڑ کے ماہر مولانا فضل الرحمان سے ملتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان انتہائی چالاک اورمعاملہ فہم سیاستدان ہیں، اپنی سیاسی پوزیشن کے بارئے میں بھی وہ اچھی طرح جانتے ہیں، حکومت کسی کی ہو مولانا فضل الرحمان کو حکومت سے اپنا حصہ لینا آتا ہے، جس طرح مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہتی اسطرح مولانا فضل الرحمان کا بغیر اقتدار گذاراممکن نہیں حکومت چاہے فوجی ہو یا جمہوری مولانا فضل الرحمان آپکو حکومت میں ملینگے، یہ ہی انکی کامیابی ہے۔مئی 2013ء کے انتخابات میں مولانا کو زیادہ لفٹ نہیں کرائی گئی، حالانکہ خیبر پختونخوا میں اتحادی حکومت بنانے کے لیے مولانا نے نون لیگ سمیت امریکی سفیر کے دروازے تک بھی دستک دی مگر شنوائی نہیں ہوئی، چونکہ وزارت، حکومت اور اقتدار سے دوری مولانا کے شرعی نظریئے کے خلاف ہے لہذٰا کچھ ہی عرصے میں مولانا نواز لیگ کے اتحادی بن کر وزارتیں کمانے میں کامیاب ہو گئے۔ مولانا فضل الرحمان میں دوسری خوبیوں کے علاوہ ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینا اور پھر اسی خوبی کے بل بوتے پر دہشت گردی کو ہوا دے کر حکومتوں کو بلیک میل کرنا بھی اُنکو خوب آتاہے۔
سال 2013ء کے انتخابات کے بعدراتوں رات زرداری کیمپ چھوڑکر نواز شریف کیمپ میں آنے والے مولانا فضل الرحمان نے حالیہ سینٹ کے انتخابات اور بعدمیں سینٹ کے چیرمین اور ڈپٹی چیرمین کے انتخابات میں اپنے پتے بہت چالاکی سے استمال کیے، مولانا فضل الرحمان کا سیاسی کاروبار تو ایسے ہر موقعے پر خصوصی طور پر چمک اٹھتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ مولانا نے اپنی دین داری اور اصول پرستی کو ایک طرف رکھ کرایک دولت مند کو سینٹ کے انتخابات میں سپورٹ کیا۔ حالیہ سینیٹ کے انتخابات میں متوقع ہارس ٹریڈنگ کو دیکھتے ہوئے نواز شریف نے سینیٹ انتخابات کیلئے بائیسویں آئینی ترمیم لانے کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق اراکین اسمبلی سیکرٹ بیلٹ کی بجائے اپنے ووٹ کا استعمال شو آف ہینڈ سے کرتے لیکن پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمان کی جماعت نے اس کی مخالفت کی۔ مولانا فضل الرحمان کی طرف سے بائیسویں آئینی ترمیم کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ بائیسویں آئینی ترمیم ہوجانے کے بعد سینیٹ انتخابات میں سے پیسے کا کھیل ختم ہوجاتا۔
گیارہ مارچ کی رات تک یہ تو سب کو پتہ تھا کہ سینٹ کے اگلے چیرمین رضا ربانی ہونگےلیکن مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت کے گھر پررات کو ہونے اجلاس میں ڈپٹی چیرمین کے نام پر سیاسی جماعتیں کسی ایک نام پر متفق نہ ہوپائی تھیں۔ ایک رات پہلے تک یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اگلے ڈپٹی چیرمین کون ہونگے، لیکن ایک شخصیت ایسی تھی جو یہ جانتی تھی اور وہ شخصیت تھی مولانا فضل الرحمان کی۔اس اجلاس میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر تمام جماعتوں نے اپنے اپنے امیدوارکھڑئے کرنے کا اعلان کیا جبکہ کچھ نےقرعہ اندازی کے زریعے فیصلہ کرنے کا مشورہ دیا۔ مولانا فضل الرحمان اجلاس ادھورا چھوڑکر چلے گے اور جاتے جاتے یہ تجویز دئے گئے کہ ڈپٹی چیرمین کا فیصلہ وزیراعظم نواز شریف پر چھوڑ دیا جائے ، انہوں نے بھی تو رضا ربانی کیلئے قربانی دی ہے۔
مولانا کی سیاست کا محور صرف اُنکے مفادات ہوتے ہیں اس سے مولانا کو غرض نہیں ہوتی کہ کون مصیبت میں ہے یا کس کا نقصان ہورہا ہے، مولانا کو اس سے بھی کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کون مرا یا کون جیا، مولانہ کا مقصد صرف اپنی غرض سے ہوتا ہے۔ آپکو یاد ہوگا دس جنوری 2013ء کوبلوچستان کے شہر کوئٹہ ميں بم دھماکوں کے نتيجے ميں116افراد ہلاک جبکہ تقريباً 250 افراد زخمی ہوگئے اور اس وجہ سے صوبہ بلوچستان میں گورنر راج نافذ ہوا مگر ہلاک ہونے والوں سے مولانا فضل الرحمن کو کوئی ہمدردی نہ تھی، انہیں اپنے مفادات کی فکر تھی اور حالیہ سینٹ کے انتخابات میں بھی مولانا کو اپنے مفادات سب سے زیادہ عزیز تھے، نواز شریف چاہتے تھے کہ چیرمین سینٹ بلوچستان سے لایا جائے، اس سلسلے میں حاصل بزنجو کا نام بھی لیا گیا، لیکن جب ایسا نہ ہوسکا تو پھر تمام جماعتیں چاہتی تھیں کہ ڈپٹی چیرمین بلوچستان سے ہی ہو لیکن سیاسی جماعتیں کسی ایک نام پر متفق نہ ہوپائی اور یہ ہی وہ موقعہ تھا جب مولانا فضل الرحمن نے بائیسویں آئینی ترمیم رکوانے کےلیے آصف زرداری سے اُنکا ساتھ دینے کا معاوضہ طلب کیا اورمولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینٹ منتخب کرانے کیلئے آصف علی زرداری سے مدد مانگی، آصف زرداری نے حکومت اور اپوزیشن جماعتوں سے بات کی۔ دوپہر دو بجے تک جے یو آئی سمیت کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ مولانا عبدالغفورحیدری ڈپٹی چیرمین منتخب ہوجائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن کی اس ساری توڑ جوڑ کے باوجود مولانا عبدالغفور حیدری کے مدمقابل چھ ارکان والی تحریک انصاف کے شبلی فراز تھے ۔ جنہیں ایک رکن والی جماعت اسلامی کی حمایت بھی حاصل تھی ۔ ڈپٹی چیئرمین کےانتخاب میں کل96 ووٹ کاسٹ ہوئے،جن میں سے6 مسترد ہوئے ۔درست90 ووٹوں میں سے عبدالغفور حیدری کو83 ووٹ ملنے کی توقع تھی لیکن ان کی حمایت میں 74 ووٹ نکلے ۔ جبکہ شبلی فراز کو7 ووٹ ملنے کا امکان تھا، لیکن ان کے حق میں 16 ووٹ کاسٹ ہوئے ۔ مولانا عبدالغفورحیدری کامیاب تو ہو گئے لیکن شبلی فراز کو ڈالے گئے9 زائد ووٹوں نے دیگر سیاسی جماعتوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ۔ مختلف ذرائع کہتے ہیں کہ یہ سیاسی جماعتوں سے ناراض سینیٹرز نے اپنی پارٹی سے بے وفائی کرتے ہوئے تحریک انصاف کے امیدوار کو ووٹ دیا۔
جبکہ بعض کا کہنا ہے تحریک انصاف کے امیدوار کو مولانا فضل الرحمان کی شخصیت کے مخالفوں کا ووٹ بھی پڑا ۔ نتیجہ جو بھی تھا لیکن یہ 9 ووٹ مولانا فضل الرحمان اور دوسری سیاسی لیڈر شپ کی نیندیں حرام کرنے کا سبب ضرور بنیں گے۔مولانا عبدالغفورحیدری سینیٹ کا ڈپٹی چیئرمین منتخب ہونے کے بعد پوسٹل سروسز کے وزیر مملکت کے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے بھائی سینیٹر مولانا عطاء الرحمن کو مولانا عبدالغفورحیدری کی جگہ وفاقی وزیر بنوانے کیلئے آئندہ چند روز میں وہ وزیراعظم نواز شریف سے رابطہ کرینگے۔ آصف زرداری جو سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر سیاستدان ہیں، جن کے بارئے میں نعرئے لگائے جاتے ہیں کہ ایک زرداری سب پہ بھاری ، لیکن مولانا فضل الرحمان اُن پر بھی بھاری ثابت ہوئے انہوں نےحسب ضرورت گرگٹ کی طرح رنگ بدل بدل کرآصف زرداری اور نواز شریف دونوں کو اپنی سیاسی حمایت کا یقین دلاکر اپنی صرف پانچ سیٹوں پر ڈپٹی چیئرمین کا عہدہ اپنی پارٹی کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کودلادیا، دوسری سیاسی جماعتوں کوسینٹ کے الیکشن سے کوئی فائدہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہولیکن ایسے ہر موقعہ پر مولانا فضل الرحمان اوران کی جماعت کے لوگ ہمیشہ فائدے رہتے ہیں۔ مولانا کی ان چالاکیوں کو دیکھ کربس یہ ہی کہا جاسکتا ہے ‘واہ مولانا فضل الرحمان واہ’۔
تحریر : سید انور محمود