اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) معروف صحافی و کالم نگار عمار مسعود کا اپنے حالیہ کالم ” آزادی مارچ کا یک نکاتی ایجنڈا” میں کہنا ہے کہ میری مولانا صاحب سے گفتگو ہوئی ہے،مولانا نے بتایا ہے کہ گذشتہ ایک برس میں سارے پاکستان کے دورے کیے۔کارکنوں کو سرگرم کیا۔حکومت کی کارگردگی پر لاکھوں سے خطاب کیا اور ہزاروں سے ملاقات کی۔28جولائی جو اس سلسلے میں انہوں نے آخری جلسہ کوئٹہ میں کیا۔جہاں اپنے کارکنان سے عہد لیا کہ جلد ہی اس حکومت کے خاتمے کے لیے پورے ملک میں احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔اب تک اس حکومت کے خاتمے میں مزید تاخیر نہیں کی جا سکتی،مولانا کے مطابق انہیں توقع تھی کہ یہ نا اہل حکومت اس احتجاجی تحریک کے اعلان سے پہلے مستعفی ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا اس لیے اب آزادی مارچ کے سوا اس حکومت سے نجات کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔دیگر سیاسی جماعتوں کی دھرنے میں شمولیت کے حوالے سے مولانا نے کہا کہ ن لیگ کے حوالے سے میڈیا میں ابہام پیدا کیا جا رہا ہے۔تاہم وہ صرف اسی بات پر یقین کریں گے جو ن لیگ کے وفد نے ان سے کی ہے۔بات صرف اتنی ہے کہ مسلم لیگ ن کے وفد نے اب نواز شریف سے مل کر ان کی باقاعدہ اجازت طلب کرنا ہے جو اصولی طور پر مل چکی ہے بس اس کا اعلان باقی ہے۔مسعود انور مزید لکھتے ہیں کہ کے پی کے نےمتعدد بار یہ کہا ہے کہ وہ آزادی مارچ کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور مولانا اور ان کے ساتھیوں کو کے پی کے سے باہر نہیں نکلنے دیں گے۔راستے بلاک کر دئیے جائیں گے،جس کے جواب میں مولانا نے کہا کہ جب آزادی مارچ انسانوں کا سیلاب ہو گا اور کوئی طاقت اسے روک نہیں سکے گی۔کسی نے ان کی راہ میں آنے کی کوشش کی تو وہ خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔پورا ملک لاک ڈاؤن ہو گا اور کاروبار حکومت ایک دن میں ٹھپ ہو جائے گا،لوگ اس تعداد میں مارچ میں شریک ہوں کہ حکومت کو استعفیٰ دینے ہی بنے گی۔آزادی مارچ کی حکومت عملی کے حوالے سے مولانا نے بتایا کہ اس کا آغاز تو اسلام آباد کی جانب سے ہو گا اور یہ حکومت مستعفی ہو جائے گی۔لیکن اگر استعفیٰ میں لیت و لعل سے کام لیا گیا تو پھر دھرنا دیا جائے گا اور یہ دھرنا حکومت کے خاتمے تک جاری رہے گا،مولانا نے یہ بھی بتایا کہ اس دھرنے کے کئی نکات ہیں۔جس میں مہنگائی،کرپشن اور وزراء کی کرپشن شامل ہے۔فاٹا ریفارمز پر دھوکا بھی ہے جب کہ ایک کروڑ نوکریوں کا جھوٹا وعدہ بھی ہے۔لیکن مارچ کا یک نکاتی مطالبہ یہی ہو گا کہ حکومت فوری طور پر مستعفی ہو جائے اور اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں اور الیکشن ریفارمز کے بعد ملک میں بئے اور شفاف انتخابات کروائے جائیں۔