تحریر : آصف لانگو
ہندوستان کے مسلمانوں پر سب سے بُرا وقت وہ تھا جب انھیں1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی ہوئی اور مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ اقتداد کا خاتمہ ہوگیا۔ برصغیر پر مسلمانوں کی حکومت ختم ہو گئی اور انگریزوں نے ساعے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ مسلمانوں پر زوال دراصل اورنگزیب عالمگیر کے انتقال کے بعد ہی آنا شروع ہو گیا تھا۔ طرح طرح کی بد اخلاقیوں، خود غرضیوں اور آپس کی نفاق نے انھیں کہیں کا نہ رکھا تھا۔ وہ تمام اسلامی اوصاف کو کھو بیٹھے تھے اور روز بروز کمزور ہوتے جا رہے تھے۔ اس وقرت مسلمانوں کی حالت کا سب سے زیادہ احساس حضرت شاہ ولی اللہ کو ہوا۔ انھوں نے مسلمانوں کو ان خرابیوں کا احساس دلایا اور ان میں اسلام کی صیح اور سچی تعلیمات پھیلانے کے لئے ساری کوشش صرف کر دیں۔
1857ء کے جب مسلمانوں کی حکومت اور اقتدار ختم ہو گیا تو ان کی حالت اور بھی خراب ہو گئی ۔ انگریزوں اور ہندوؤں نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی ختم کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس وقت بھی اسلام کی تعلیم اور پیغام کی حفاظت کا بیڑا ایک ایسے شخص نے اٹھایا جس خاندان ِ ولی اللہ سے علم و حکمت کی روشنی حاصل کی تھی۔ اس مرد مجاہد نے ایک طرف ان عیسائی پادریوں اور ہندو پنڈتوں کا منہ بند کیا جو اسلام کی تعلیم کو غلط رنگ میں پیش کر رہے تھے ۔ اور دوسرے طرف اسلام اور قران کی تعلیم عام کرنے کے لئے دینی ادارہ قائم کیا۔ یہ دینی ادارہ دارالعلوم دیوبند کے نام سے ساری دنیا میں مشہور ہے اور جامعہ ازہر مصر کے بعد دنیا کا سب سے بڑا اسلامی یونیورسٹی ہے اللہ کے یہ سپائی مولانا محمد قاسم نانوتوی ہیں ۔ مولانا ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے آپ بہت زہین اور محنتی تھے اور تعلیم کا شوق رکھتے تھے ۔ مکتب میں آپ اپنے تمام ساتھیوں میں ممتاز رہتے تھے ۔ آپ نے کم عمری ہی میں قران مجید حفظ کر لیا تھا ۔ آ پ کا خط بہت اچھا تھا اور حافظہ اتنا تیز تھا کہ آپ کو بڑی بڑی نظمیں اور قصے زبانی یاد تھے۔
مولانا محمد قاسم نانوتوی کے والد اتنے غریب تھے کہ وہ آپنے ہونہار بیٹے کو اعلی تعلیم کے لئے باہر بھیجنے کا خیال بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ اللہ نے اس کی سبیل اس طرح نکالی کہ اس دور میں مشہور عالم ، بذرگ اور صوفی حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی آپ کی زیانت سے متاثر ہوئے ۔ انھوں نے آپ کی بڑی مدد کی ۔ آپ نے مکتب کی تعلیم کے بعد دیوبند اور سہار نپور کے مدرسوں میں فارسی اور عربی زبان کی تعلیم حاصل کی اور حدیث کی تعلیم حضرت شاہ عبدالغنی سے حاصل کی جو شاہ ولی اللہ کے چھوٹے بیٹے تھے۔دینی علوم حاصل کرنے کے بعد آپ نے ریاضی فلسفہ و غیرہ میں اتنی مہارت حاصل کر لی کہ دہلی کالج کے تمام اساتذہ آپ کی زہانت اور قابلیت مداح ہو گئے ۔ اس زمانے میں آ پ نے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے ہاتھ پر بیت کی مالی حالات اچھے نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو تعلیم ادھوری چھوڑ کر نوکری کرنی پڑی۔ 1857ء میں تحریک آزادی شروع ہوئی تو انگریزوں کے خلاف جگہ جگہ محاز کھل گئے۔
اس جنگ میں خاندان شاہ ولی اللہ اور اس سلسلے کے اکثر بزرگ پیش پیش تھے۔ ان میں مولانا حاجی امدا د اللہ ، مولانا رشید احمدگنگوئی ، مولانا محمد قاسم نانوتوی ، مولانا عبدالغنی ، مولانا محمد یعقوب نانوتوی اور شیخ محمد تھانوی جیسے علماء اور بزرگ قابل زکر ہیں ۔ ان مجاہدین میں مختلف لوگوں کو جو عہد ے دیئے گئے ا ن میں سپہ سالار کا عہدہ مولانا محمد قاسم نانوتوی کے سپرد ہوا اور شاملی کا محاز ان بزرگوں نے سنبھالیا ۔ پہلے ہی حملے میں ان بزرگوں نے اپنی بہادری اور بے خوفی سے شاملی کا علاقہ انگریزوں قبضے نکال لیا۔ پھر جب انگریز فوجوں نے اس محاز پر پہلا حملہ کیا تو اسے بھی پسپا کر دیا مگر غداروں کی مخبری اور انگریزوں کے جدید ہتھیاروں نے بالا خر تحریک آزادی کو دبا دیا اس کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں سے بڑا خوف ناک انتقام لیا ۔ انگریزوں کو ان حضرات کے بارے میں بھی سن گن مل چکی تھی ۔ حاجی امداد اللہ ،مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا رشید گنگوئی کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوگئے ۔ لہذا یہ لوگ ہندوستان چھوڑ کر حجاز چلے گئے۔
جب حالات معمولپر آئے تو آپ واپس ہندوستان آئے اُس زمانے میں ایک طرف عیسائی پادریوں اور دوسری طرف ہندوؤںنے مسلمانوں کو شکست خوردہ ، پریشان حال اور بے سہارہ دیکھ کر عیسائی اور ہندو بنانے کی تحریکں شروع کر دیں ۔ عیسائی انھیں روز گاری کی زمانت اور روپے پیسے کا لالچ بھی دیتے تھے اس وقت ان فتنوں کے خلاف مولانا محمد قاسم نانوتوی میدان میں اترے اور چند ہی مناظروں میں اسلام کی سچائی اور بڑائی کو ثابت کر دکھایا ۔ آ پ کی قابلیت اور سچائی کی وجہ سے بہت سے عیسائی اور ہندو بھی مسلمان ہونے لگے اور آپ کی قابلیت اور زہانت اورخلوص کی دھاگ پور ے ہندوستان میں بیٹھ گئی۔ آ پ کو” حجةالاسلام” کا خطاب دیا گیا ۔ جس کا مطلب ہے اسلام کا حجت یا دلیل۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی کی دُور رس نگائیں دیکھ رہی تھیں کہ انگریزوں کے حکومت کے ساتھ بر صغیر میں ایک نئے دور کی ابتدا ہو رہی ہے اس دور میں سب سے بے بس قوم مسلمان ہے ۔ جیسے انگریزوں اورہندو دونوں مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان حالات مولانا محمد قاسم نانوتوی کے سامنے ایک ہی راستہ تھا کہ مسلمانوں کود ین سے وابستہ رکھنے کے لئے ایک مستقل ادارہ قائم کر دیئے جو حکومت کی امداد سے بے نیاز ہو چنانچہ آپ نے حضرت مولانا رشید احمد گنگوئی سے مل کر ١٢٨٣ھ بمطابق 1867ء میں دارالاسلام دیوبند کی بنیاد رکھی ۔ تمام مسلمانوں نے اس ادارے کے لئے دل کھول کر مالی امداد دی ۔ یہاں سے اسلا م کی سچی تعلیمات کا چشمہ پھوٹا جس سے سیراب ہونے کے لئے نا صرف برصغیر بلکہ ایشیاء ،یورب اور افریقہ طالبہ بھی یہاں آنے لگے ۔ آ پ اس ادارے علوم کے سر پرست مقرر ہوئے۔ اس دارالعلوم کو ترقی دینے میں مولانا محمد قاسم نانوتوی نے ممکن کوشش کی ۔47سال کی عمر میں ١٢٩٧ ھ مطابق 1880ء میں مولانا محمد قاسم نانوتوی خالق حقیقی سے جا ملے لیکن آپ نے اشاعت علم کے لئے جو کوشش کی ،اس بنا پر رہتی دنیا تک آپ کا نام زندہ رہئے گا۔
تحریر : آصف لانگو