کراچی: معروف عالم دین مولانا طارق جمیل صاحب نے اپنی یونیورسٹی لائف کا ایک دلچسپ قصہ سُنایا، جس کے بیچ میں انہوں نے اپنی سُریلی آواز میں ”گلاں دل دیاں دل وچ رہ گئیاں، شاماں پے گئیاں“ گانا بھی گنگنا دیا۔مولانا طارق جمیل نے کہا کہ یہ ہمارے زمانے کا بڑا مشہور گانا تھا، میں اپنے اسکول، کالج کا بہترین ٹاپ سنگر تھا، میوزیکل پروگرام ہوتا تو ہر لڑکا ایک بار آتا اور مجھے 2 بار بلاتے تھے۔انہوں نے ایک تقریب میں طلباء وطالبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں یونیورسٹی میں 69ء اور 71ء میں یہاں آیا تھا۔ ہمارے کچھ دوست یہاں داخل ہوگئے تھے۔ مجھے تو پڑھنے کا شوق نہیں تھا، ہمیں تکبر تھا کہ اللہ نے ہمارے آباؤاجداد کو زمینیں دی ہیں، نہ بھی پڑھے تو کچھ نہیں ہوتا۔اس دوران ہمارے ایک ہوسٹل وارڈن آگئے، انہوں نے ڈنڈے مارنے شروع کئے کہ پڑھو، پڑھو، لیکن ہم نے چکر چلانے شروع کردیے، کبھی بیمار ہوکر پڑ گئے، کبھی حاضری لگا کر نکل جاتے۔ انہو ں نے کہا کہ ایک بار میں اور میرا دوست فرضی بیمار ہوگئے۔ میرا دوست میلسی کاکچھی تھا، وہ بھولا بھالا تھا، میں تھوڑا چالاک تھا۔ مجھے پتا تھا کہ طالب صاحب آئیں گے تو میں نے بیمار ہونے کی ایکٹنگ کی۔ میں کچن میں گیا، تھوڑی راکھ لایا، اس پر پانی ڈالا، اور تھوڑا تھوک کرکے، اس کو الٹی (قے) کی شکل بنا دی تاکہ طالب صاحب آئیں گے اور دیکھیں گے کہ میں تو بیمار ہوں۔انہوں نے کہا کہ لیکن میرا دوست بھول بھالا تھا۔ ہم دونوں آپس میں گپ شپ کرتے رہے، میری چھٹی حس نے کہا کہ طالب صاحب آنے والے ہیں، میں رضائی اوپر لیکر سوگیا، میرا دوست بھی رضائی اوپر لے کر تھوڑی دیر لیٹا لیکن چھ فٹ قد اور صحت مند، تھوڑی دیر بعد گانا شروع کردیا۔ “گلاں دل دیاں دل وچ رہ گئیاں،شاماں پے گئیاں“، جب اس نے تیسری بار گانا گایا تو طالب صاحب اس کے سر پر کھڑے تھے، انہوں نے رضائی اتاری اور خوب ڈنڈوں سے پٹائی کی۔