7 فروری کو لاہور میں ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کے ’’ڈیرے‘‘ (ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان) میں مرحوم چیف جسٹس آف پاکستان ڈاکٹرنسیم حسن شاہ کی دوسری برسی پر سیّد عابد حسین شاہ اور مرحوم کے دوسرے دوستوں نے اُن کی یادوں کے چراغ روشن کئے۔ 7 فروری کو مَیں نے بھی، جسٹس ڈاکٹر سیّد نسیم حسن شاہ کو بہت یاد کِیا۔ ہُوا یوں کہ ’’وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے درمیانے طبقے کے دانشور وزیراعلیٰ جناب محمد حنیف رامے سے استعفیٰ طلب کر کے انہیں سینیٹر منتخب کروا دِیا تھا اور اُن کی جگہ ملتان کے نواب صادق حسین قریشی کو وزیراعلیٰ بنا دِیا تھا۔
15 اکتوبر 1975ء کو سینیٹر حنیف رامے نے ایک پُر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کر کے پیپلز پارٹی چھوڑ کر جنابِ بھٹو کے خلاف علم بغاوت بلند کردِیا اور لاہور سے خالی ہونے والی صوبائی اسمبلی کے حلقہ نمبر 6 کی نشست جس پر بھٹو صاحب کے ایک اور باغی ، پارٹی میں اپنے حریف ، ملک غلام مصطفیٰ کھر کی حمایت کا اعلان کردِیا اور اُن کی انتخابی مہم سنبھال لی۔ رامے صاحب اپنے عوامی جلسوں میں بہت رش لے رہے تھے ۔ پیپلز پارٹی لاہور میں پارٹی کے باغی کارکُنوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی ۔ مَیں نے اپنا روز نامہ ’’ سیاست‘‘ لاہور کو کھر صاحب کا ترجمان بنا دِیا۔
چیف سیکرٹری پنجاب بریگیڈئیر ملک مظفر خان نے مجھے اپنے دفتر میں طلب کِیا اور کہا کہ ۔ ’’اثر چوہان صاحب!۔ وزیراعلیٰ نواب صادق حسین قریشی نے مجھے حُکم دِیا ہے کہ ۔ مَیں آپ کے سارے مسائل حل کردوں!‘‘۔ آپ حنیف رامے کا ساتھ چھوڑ دیں‘‘ مَیں نے عرض کِیا۔ چیف سیکرٹری صاحب!۔ میرا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ مَیں چلتا ہُوں‘‘۔ چیف سیکرٹری صاحب نے میرا یہ تلخ جُملہ برداشت کرلِیا اور مجھے واپس جانے دِیا۔حلقہ نمبر 6 میں مَیں ، رامے صاحب کا جوشِ خطابت رنگ لا رہا تھا۔ روزنامہ ’’ سیاست‘‘ کی مقبولیت بڑھ رہی تھی ۔
ایک دِن وزیراعظم ہائوس اسلام آباد سے جنابِ بھٹو کے سکیورٹی آفیسر ، چودھری عبدالحمید باجوہ میرے دفتر میں ’’ چائے پینے ‘‘ تشریف لائے۔ ( باجوہ صاحب میری صحافت کے ابتدائی دَور میں سرگودھا میں سپرنٹنڈنٹ آف پولیس تھے) ۔ اُن سے میرے خوشگوار تعلقات تھے ۔ اُنہوں نے مجھے کہا ۔ ’’ اثر چوہان جی !۔ حنیف رامے تے بھیڑا وَیلا آئون لگّا اے ، تُسِیں اوس دا ساتھ چَھڈ دیو ۔ مَیں وزیراعظم بھٹو نال تہاڈی ملاقات کرا دیاں گا ۔ تُسِیں جو چاہو گے مَیں تہانوں لَے دیاں گا‘‘۔ مَیں نے عرض کِیا کہ ۔ ’’ وڈے بھرا باجوہ جی!۔ مَینوں تے کِسے شے دِی وِی لوڑ نئیں !‘‘۔ باجوہ صاحب مجھے ’’ بے وقوف ‘‘ کا خطاب دے کر چلے گئے۔
وزیراعظم بھٹو نے جناب حنیف رامے سے تقریری مقابلہ کرنے اور لاہور فتح کرنے کے لئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مولانا کوثر نیازی کو لاہور بھجوایا ۔ مولانا کوثر نیازی اپنے صحافی دوست (بعد میں پاکستان آبزرور کے چیف ایڈیٹر ) زاہد ملک کو ساتھ لے کر میرے دفتر تشریف لائے اور اُنہوں نے مجھے ’’ سیاست‘‘ کی پالیسی تبدیل کر کے سرکاری مراعات کی پیش کش کی ۔ مَیں نے عرض کِیا کہ ۔ ’’ مولانا صاحب !۔ مَیں معذرت چاہتا ہُوں ‘‘ ۔ دو دِن بعد چیف سیکرٹری ملک مظفر خان نے سیاست کے پرنٹر منہاج اُلدّین اصلاحیؔ (مرحوم) کو اپنے دفتر بُلا کر اُن سے روزنامہ ’’ سیاست‘‘ کے “سانچے اعلامیہ” پر دستخط کرالئے اور ’’سیاست ‘‘ بند ہوگیا ۔
مَیں اپنے دوست ( اُن دنوں ) پنجاب پیپلز پارٹی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ کے دفتر گیا ۔ لنگاہ صاحب نے وزیراعلیٰ نواب صادق حسین قریشی کے خلاف میری “رٹ پٹیشن” جسٹس ڈاکٹر سیّد نسیم حسن شاہ کی عدالت میں دائر کردی ۔ لنگاہ صاحب کی درخواست پر جسٹس صاحب نے حُکم جاری کِیا کہ ۔ ’’ تعطیلات کے سِوا ایڈیٹر روزنامہ ’’ سیاست‘‘ کی درخواست کی ہر روز سماعت کی جائے گی ‘‘۔ میرے لئے لاہور ہائی کورٹ سے انصاف مِلنے کا پہلا مرحلہ شروع ہوگیا تھا ۔
اُسی شام مَیں نے پیپلز پارٹی کے بانی رُکن اور سابق ڈپٹی سیکرٹری جنرل و وفاقی وزیر بردارِ محترم خورشید حسن مِیر کو راولپنڈی فون کِیا ۔ دوسرے دِن مِیر صاحب لاہور پہنچ گئے ۔ عدالت میں پیش ہُوئے تو جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ صاحب نے اُن سے پوچھا ۔ ’’ مِیر صاحب!۔ آپ یہاں کیسے؟‘‘۔ مِیر صاحب نے کہا کہ ۔ ’’جنابِ والا ! ۔ مَیں بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ کی معاونت کر رہا ہُوں‘‘ ۔ جسٹس صاحب نے مسکرا کر میری طرف دیکھا ۔ مَیں بھی مسکرا دِیا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سرگودھا کے میرے بزرگ دوست پیپلز پارٹی کے نامور ایڈووکیٹ سیّد مسعود زاہدی تھے ۔ مَیں سرگودھا کے اپنے ایک اور دوست عِصمت اللہ علیگ کو ساتھ لے کر زاہدی صاحب کی سرکاری رہائش گاہ پر گیا ۔ اُنہوں نے مجھ سے اور عِصمت صاحب سے حق اور سچ کا ساتھ دینے کا وعدہ کِیا ۔ اگلے دِن پتہ چلا کہ زاہدی صاحب لمبی چھٹی پر چلے گئے ہیں ۔
مسلسل سماعت ، بیرسٹر تاج محمد خان لنگاہ اور جناب خورشید حسن مِیر کی وکالت کے بعد جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل عبدالستار نجم ؔ کے ذریعے حکومتِ پنجاب کو حُکم دِیا کہ ۔ ’’وہ سات دِن کے اندر اندر حکومت عدالت کو بتائے کہ وہ روزنامہ ’’ سیاست ‘‘ بحال کرتی ہے یا نہیں؟‘‘ اوراگر سات دِن کے اندر حکومت نے نہیں بتایا تو یہ سمجھا جائے گا کہ ۔’’ سیاستؔ بحال ہوگیا ہے ‘‘۔ تاج محمد خان لنگاہ نے میرے کان میں کہا کہ ۔ ’’ اثر چوہان جی !۔ اب آپ گھر بیٹھ جائیں ۔ سات دِن کے بعد وزیراعلیٰ صادق قریشی کے والد صاحب کو بھی آپ کا اخبار بحال کرنا پڑے گا ‘‘۔
دِس دِن بعد مَیں لنگاہ صاحب کی ہدایت کے مطابق اپنے مہربان دوست ( اُس دَور میں ) سیکرٹری اطلاعات شیخ حفیظ اُلرحمن سے مِلا اور مَیں نے اُن سے کہا کہ ۔ ’’ شیخ صاحب!۔ آج دس دِن ہو گئے ہیں حکومتِ پنجاب نے میرا اخبار بحال نہیں کِیا ‘‘۔ میرے وکیل تاج محمد خان لنگاہ نے مجھے وزیراعلیٰ اور چیف سیکرٹری کے خلاف توہینِ عدالت کا مقدمہ دائر کرنے کا مشورہ ہے ۔ اب مَیں کیا کروں؟۔ شیخ صاحب مسکرائے ۔
اُنہوں نے مجھے کچھ دیر اپنے دفتر میں بیٹھنے کو کہا اور دفتر سے اُٹھ کر چلے گئے تھوڑی دیر بعد شیخ صاحب مجھے اپنے ساتھ چیف سیکرٹری ملک مظفر خان کے دفتر لے گئے ۔ اُنہوں نے مجھے چائے پلوائی اور کہا کہ ۔ ’’ اثر چوہان صاحب!۔ مُبارک ہو !۔ ہم نے آپ کا اخبار بحال کردِیا ہے ‘‘۔ تحریکِ پاکستان کے ’’گولڈ میڈلِسٹ ‘‘ کے کارکُن میرے والد صاحب رانا فضل محمد چوہان میرے چھوٹے بھائی محمد علی چوہان کو ساتھ لے کر صِرف ایک دِن حضرت داتا گنج بخشؒ کی بارگاہ میں میرے لئے دُعا کرنے گئے تھے اور جب ’’سیاست‘‘ بحال ہوگیا تو مَیں بھی اُن کے ساتھ وہاں حاضری کے لئے گیا تھا۔
کل 7 فروری سے لے کر مَیں اپنا کالم ’’ نوائے وقت ‘‘ کو ای ۔ میل کرنے سے پہلے تک سوچتا رہا کہ ۔ ’’جسٹس نسیم حسن شاہ سپریم کورٹ کے اُس لارجرر بنچ کے رُکن بھی تھے جن کے 7میں سے 4ممبران نے جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کر دی تھی‘‘۔ پھر بھٹو صاحب کے لئے اُن کے لاکھوں عقیدت مندوں کی دُعائیں قبول کیوں نہیں ہُوئیں؟ کیا جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ اور اُن کے ساتھی ججوں کا فیصلہ بھی قُدّرت کا فیصلہ تھا؟