تحریر : ایم پی خان
دشت کربلا کے عظیم ترین سیاح ، میرببرعلی انیس کا تعلق خاندان سادات کے ایک ایسے گھرانے سے تھا، جہاں پشت درپشت شعر و ادب کاچراغ روشن تھا۔ انکے والد کانام میر مستحسن خلیق تھا ، جو معروف مثنوی گوشاعر میرحسن کے صاحبزادے تھے۔میرانیس 1803ء کو فیض آبادمیں پیداہوئے عربی اورفارسی کے علوم کے علاوہ فنون سپہ گری کی تعلیم حاصل کی اورساتھ ساتھ فن شہسواری میں بھی کمال حاصل کیا۔میرانیس اردوکے عظیم مرثیہ گوشاعرتھے، تاہم شاعری کی ابتداغزل سے کی تھی ۔حزیں تخلص رکھاتھا۔شیخ امام بخش ناسخ کے کہنے پر انیس تخلص اختیارکیا۔ انکے پردادامیرغلام حسین ضاحک اردو کے صاحب دیوان شاعرتھے۔
تین نسلوں سے اس خاندان میں معیاری شاعری نے میرانیس کے فن کو خوب عروج پرپہنچایا۔یہی وجہ ہے کہ اہل ادب میرانیس کو خدائے سخن کے نام سے پکارتے ہیں۔اپنی شاعری کی ابتداء غزل سے کی تھی لیکن اپنے والد کی نصیحت پر مرثیہ کہنے لگے اورپھرغزل کی طرف توجہ ہی نہیں کی۔آٹھ سال کی عمر میں انہوں نے پہلاشعرکہاتھا،جس پر شیخ امام بخش ناسخ نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ بچہ شعروشاعری کی سلطنت کابادشاہ بنے گا۔شعریہ ہے۔
کھلاباعث یہ اس بیدادپہ آنسونکلنے کا
دھواں لگتاہے آنکھوں میں کسی کے د ل کے جلنے کا
انکی غزلیں دستیاب نہ ہیں ،جوکہ شایدانہوں نے خودضائع کردی تھیں ،تاہم پندرہ سولہ غزلیں محققین کودستیاب ہوئی ہیں ، جن سے غزل کے میدان میں انکی مہارت کااندازہ ہوتاہے۔
نزع میںہوں میری مشکل کروآساں یارو
کھولو تعویذ شفا جلد مرے بازو سے
انیس دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جائو
چراغ لے کے کہاں سامنے ہواکے چلے
تاہم میرانیس نے اپنی تمام توجہ مرثیہ کی طرف کی، کیونکہ مرثیہ کی میراث انہیں آبائواجدادسے منتقل ہوئی تھی ۔اپنی طبع روانی ، ذاتی لیاقت ، کربلاسے ایمانی وابستگی اورشاہان اودھ کے عہد حکومت میں لکھنوکے اندرعزاداری کے لئے مثالی ماحول کی دستیابی نے انہیں مرثیہ نویسی اورمرثیہ خوانی میں وہ مقام دیا، جونہ پہلے کسی کے حصے میں آیاتھااورنہ بعدمیں آسکا۔بہت کم مدت میں میرانیس نے سلاست زبان ، ادائیگی اورحسن بیان میں اس وقت کے مرثیہ کے استاد مرزا دبیر اور دیگراساتذہ فن کو پیچھے چھوڑدیا۔ انہیں دشت کربلاکاعظیم ترین سیاح اس وجہ سے کہاگیاکہ کسی بھی صنف شاعری میں کوئی شاعراس مقام تک نہیں پہنچ سکاکہ اس صنف میں شاعرکے کلام کو حرف آخرکہاجاسکے۔سوائے میرانیس کے، جن کو اپنے کلام پر کماحقہ دسترس حاصل تھی۔جملہ اصناف شاعری میں مرثیہ لکھنامشکل کام ہے
تب ہی توغالب جیسے سخنورشاعرنے مرثیہ میں تین چاربند لکھنے کے بعدقلم رکھ دیاتھااورکہاتھاکہ مرثیہ کہنااسکے بس کی بات نہیں، یہ حق صرف میرانیس کاہے۔میرانیس ایک اعلیٰ سخنورہونے کے علاوہ نہایت خوش آوازبھی تھے ۔انیس کی آوازمیں عجب دلکشی تھی ان کاندازبیان بہت خوب صورت تھا۔آب حیات میں محمدحسین آزادیوں رقمطرازہیں ۔” میرانیس کے کلام اورکمال کی کیاکیفیت بیان کروں۔محویت کایہ عالم تھاکہ وہ شخص ممبر پر بیٹھا پڑھ رہاتھا اورمعلوم ہوتاتھاکہ جادوکررہاہے۔
انیس کی آواز ، ان کاقدوقامت ، ان کی شکل وصورت کااندازغرض ہرشے مرثیہ خوانی کے لئے ٹھیک اورموزوں واقع ہوئی تھی”۔ جو ش ملیح آبادی نے میرانیس کی عظمت کااعتراف اس اندازمیں کیاہے۔
اے دیارلفظ ومعنی کے رئیس ابن رئیس
اے امین کربلا ، باطل فگاروحق نویس
ناظم کرسی نشین وشاعریزداں جلیس
عظمت آل محمد ۖ کے مورخ اے انیس
تیری ہرموج نفس روح الامین کی جان ہے
تومری اردوزباں کا بولتاقرآن ہے
میرانیس کے مرثیوں کی تعداد تقریباًبارہ سوہے ۔ انہوں نے روایتی مرثیوں کے علاوہ سلام ، قصائد ، نوحہ اوررباعیات کابھی کثیرذخیرہ چھوڑا ہے ۔ اسکے علاوہ میرانیس نے تقریباً چھ سورباعیات چھوڑی ہیں۔انکی شاعری کامنبع ومرکزکربلا کاواقعہ اورشجاعت وقربانی ہے ۔ میرانیس واحدشاعرہیں ، جنہوں نے اپنے مراثی میں منظرکشی کے علاوہ واقعات اورکرداراس اندازسے پیش کئے ہیں ،جوقاری کی آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔میرانیس کامعروف مرثیہ”آج شبیرپہ کیاعالم تنہائی ہے” جب لکھنوسے دہلی پہنچاتونواب مصطفی خان شیفتہ نے اسکامطلع سن کر یہ الفاظ کہے تھے ۔”میرصاحب اگرپورامرثیہ نہ لکھتے توصرف یہ شعرہی کافی تھی”۔
میرانیس نے بے نقط مراثی بھی لکھے۔میرانیس کو مرثیہ کافن وراثت میں ملاتھا۔انکے دوبھائی میرانس اورمیرمونس بھی مرثیہ گوتھے اورانکی اولادمیں مرثیہ لکھنے کی روایت چلتی رہی۔ انکے صاحبزادے میرنفیس اورپھرانکی اولادتک یہ سلسلہ جاری تھا۔خودمیرانیس اپنی مرثیہ نگاری کے بارے میں کہتے ہیں۔
سبک ہوچلی تھی ترازوئے شعر
مگرمیں نے پلہ گراں کردیا
ایک اورجگہ میں میرانیس اپنی مرثیہ خوانی کاذکراس اندازمیں کرتے ہیں۔
عمرگزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں
پانچویں پشت ہے شبیرکی مداحی میں
میرببرعلی انیس1874کو لکھنومیں وفات پائے اوراپنے سکونتی مکان واقع سبزی منڈی میں دفن ہوئے۔
تحریر : ایم پی خان