counter easy hit

بے معنی انتخابی اصلاحات

ہمارے قومی مسائل میں انتخابی اصلاحات کا مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل  ہے۔ اس حوالے سے ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جسے پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کا نام دیا گیا ہے۔ اس کمیٹی کو قائم ہوئے کافی عرصہ ہورہا ہے لیکن ابھی تک اس کمیٹی کی جانب سے کوئی بامعنی اصلاحات کی خبریں میڈیا میں نہیں آئیں۔ اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ انتخابی اصلاحات کے لیے کام کرنے والوں میں ایسے لوگ شامل نظر نہیں آتے جو انتخابی اصلاحات کے مقاصد کو سمجھ سکیں۔

ہمارے ملک میں 69 سالوں سے جو انتخابی نظام رائج ہے وہ صرف اشرافیہ کو قانون ساز اداروں میں بھیجنے کی خدمت انجام دے رہا ہے اور اشرافیہ کے نمایندے جب قانون ساز اداروں میں پہنچتے ہیں تو فطری طور پر اشرافیہ کے طبقاتی مفادات کے تحفظ کی کوششیں کرتے ہیں اس کلچر کی وجہ سے عوام کے حقیقی نمایندے قانون ساز اداروں میں نہیں پہنچ سکتے یوں عوام کے مسائل ہمیشہ پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔

اس پس منظر میں یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ انتخابی اصلاحات کا اصل مقصد ملک کی اکثریت یعنی غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت ایماندار اور مخلص لوگوں کو قانون ساز اداروں میں بھیجنے کی راہ ہموار کرنا ہی ہوسکتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب تک اس حوالے سے کوئی کوششیں کی گئی ہیں؟ اس سوال کا جواب نفی ہی میں آتا ہے۔ پچھلے دنوں پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا، اطلاعات کے مطابق ذیلی کمیٹی نے آئین کے آرٹیکل 62-63 پر غور شروع کردیا ہے۔

اجلاس کے بعد میڈیا کے نمایندوں سے بات کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمن نے بتایا کہ تمام سیاسی جماعتیں آئین کے آرٹیکل 62-63 پر اپنی تجاویز آئینی کمیٹی کو دے رہی ہیں۔ سینیٹ کے الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کے لیے مشاورت مکمل کرلی گئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ نئی تجاویز کے مطابق سینیٹ کے انتخابات کے بجائے سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کو اپنے ارکان کی تعداد کے مطابق امیدواروں کی ترجیحی فہرست فراہم کریں گی، الیکشن کمیشن سینیٹ ممبران کی مدت کے اختتام کے بعد فہرست کے مطابق نئے سینٹرز کا نوٹیفکیشن جاری کردے گا۔

بلاشبہ سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کے لیے مشاورت مکمل کرلینا ایک مثبت اقدام ہے کیونکہ ہمارے انتخابی نظام میں ہارس ٹریڈنگ ایک خطرناک بیماری کی طرح موجود ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ہارس ٹریڈنگ ختم ہوجائے گی؟ اس سوال کی اہمیت اس لیے ہے کہ 69 سالوں سے ہمارے انتخابی نظام میں دوسری بے شمار بیماریوں کے ساتھ ساتھ ہارس ٹریڈنگ ایک وبائی بیماری کی طرح شامل ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کرنے والے کون لوگ ہوتے ہیں اور ان کے مقاصد کیا ہوتے ہیں؟

اگر ہارس ٹریڈنگ کا ارتکاب کرنے والے طبقات مضبوط اور بااثر ہیں اور ہارس ٹریڈنگ ان کی انتخابی ضرورت ہے تو کیا یہ طبقات ہارس ٹریڈنگ سے باز آجائیں گے یا اس مقصد کے حصول کے لیے نئے راستے تلاش کرلیں گے۔انتخابی اصلاحات کا اصل اور منطقی مقصد تو یہی ہوسکتا ہے کہ کسی تخصیص کے بغیر اہل، دیانتدار نمایندوں کو قانون ساز اداروں میں پہنچانے کا راستہ ہموار کیا جائے۔ جمہوریت کا مقصد اکثریت کی حکومت ہی ہوتا ہے ہمارے ملک کی 20 کروڑ کی آبادی میں کسانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے ۔ ہمارے ملک میں مزدوروں کی تعداد ساڑھے چار کروڑ بتائی جاتی ہے اس کے علاوہ مختلف شعبوں میں کام کرنے والے غریب طبقات بھی ہمارے انتخابی نظام میں قانون ساز اداروں میں نہیں پہنچ سکتے۔کیا زیر بحث انتخابی اصلاحات میں ملک کی غریب اکثریت کو قانون ساز اداروں میں پہنچانے کی سبیل کی جا رہی ہے۔

ہمارے انتخابی نظام کا حال یہ ہے کہ جس کی جیب میں کروڑوں کا سرمایہ نہ ہو وہ انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور 69 سالوں سے کروڑوں کے مالک ہی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور انتخابات جیت بھی رہے ہیں کیا موجودہ کمیٹی انتخابات میں سرمائے کی طاقت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ہمارے انتخابی نظام کا حال یہ ہے کہ سیاسی موروثیت انتخابات جیتنے کا سب سے بڑا سرٹیفکیٹ بنی ہوئی ہے۔ یہ کلچر اب اس قدر مضبوط ہوگیا ہے کہ سیاست اور اقتدار چند خاندانوں کی میراث بن کر رہ گئے ہیں۔

ہمارے انتخابی نظام میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ غریب طبقات سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی باصلاحیت ایماندار اور مخلص ہو ملک کی سربراہی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس کے برخلاف پڑوسی ملک بھارت میں وزیر اعظموں کی اکثریت کا تعلق غریب طبقات سے رہا ہے۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی ایک ڈھابے پر باہر والے کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں۔ کیا ہماری سیاست ہمارے انتخابی نظام میں کوئی ڈھابے پر کام کرنے والا ملک کا وزیر اعظم بن سکتا ہے؟

اس کے برخلاف ہماری سیاست کا عالم یہ ہے کہ حکمران طبقات اقتدارکو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے ولی عہد تیار کر رہے ہیں۔کیا مستحکم ہوتے ہوئے ولی عہدی نظام میں مزدوروں،کسانوں، وکلا، ڈاکٹروں، صحافیوں، ادیبوں، شاعروں، دانشوروں کا کوئی باصلاحیت نمایندہ وزیراعظم بننے کا تصور بھی کرسکتا ہے؟ بلاشبہ اس بوسیدہ اور جمہوریت کی نفی کرنے والے نظام میں صلاحیتوں کی بنیاد پر اکثریتی طبقات کے نمایندے ملک کے سربراہ نہیں بن سکتے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتوں میں انتخابات کا کلچر ہی موجود نہیں، اشرافیائی سیاسی جماعتوں کی سربراہی موروثی ہے۔ کیا ہماری انتخابی اصلاحات میں سیاسی اوراقتداری موروثیت کے خاتمے کا بندوبست کیا جارہا ہے؟

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website