تحریر : ایم آر ملک
اسی طرح کی وہ ایک تقریب تھی مگر؟ ایڈیٹر ز کونسل آف نیوز پیپرز سے دوران خطاب وزیر اعظم نے یہ باور کرایا کہ ”مجھے میڈیا کی آزادی سے پیار ہے مگر بعض اوقات میڈیا نے مثالی کردار ادا نہیں کیا ”اسی دوران اُن کا کہنا یہ بھی تھا کہ دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوا تو بھی میڈیا کا کردار کچھ اچھا نہیں تھا بہت سے چینلز نے اُن کا ساتھ دیا جبکہ چند چینلز نے اُ ن کا ساتھ نہیں دیا ۔ کیا ایک جمہوری حکومت کی طرف سے یہ اپنی دانست میں میڈیا کو غیر ذمہ دار قرار دینے کا ارتکاب سمجھا جائے ؟اور کیا (ن)لیگی قیادت کی دانست میں وہی میڈیا آزاد ہے جو اُن کی تعریف و توصیف میں زمیں آسماں کے قلابے ملا دے ؟ میڈیا کی جب ہم آزادی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں جمہوری ادوار کا آمرانہ کردار سامنے رکھنا پڑے گا ۔روز نامہ جنگ کو ہی لیتے ہیں کہ جب ن لیگ کا دوسرا جمہوری دور تھا تو کیا ایک بڑے اخباری گروپ کے ساتھ جمہوری رویہ روا رکھا گیا ؟ اظہار رائے کی آزادی یہاں تک پہنچی کہ جنگ گروپ آف نیوز پیپر پر سیف الرحمان کو احتساب کی تلوار دیکر بٹھا دیا گیاسرکاری اشتہارات تک بند کر دئے گئے ۔جنرل مشرف کے دورکو ”جمہوریت پسند حلقے ” اپنی دانست میں جتنا رگیدیں مگر ٹی وی چینلز کی موجودہ آزادی یا مثبت تنقید کا حق ایک آمر کی طرف سے ہمیں ودیعت ہوا۔
ہماری یہ آزادی کسی جمہوری دور کا خاصہ نہیں آمرانہ حکمرانی کا ایک ایساتاریخی و سنہری کارنامہ ہے جس نے عوام کے اندر شعوری تبدیلی کی راہ ہموار کی ورنہ پی ٹی وی کی شکل میں شہری علاقوں سے لیکر دیہی علاقوں تک ”حکومت نامہ” ہمارے شعور پر دانستہ طور پر مسلط رہا ۔اس تسلط کو ایک آمر نے توڑا جنرل مشرف کی طرف سے یہ تنقید اگر سننے کو ملتی تو وہ قابل برداشت تھی لیکن یہ تنقید ایک ایسے جمہوری وزیر اعظم کی طرف سے سننے کو ملی ہے جس کا مقدمہ دوران جلاوطنی یہی میڈیا اور ٹی وی چینلز لڑتے رہے ۔جو میڈیا آج باعث تنقید ہے اسی میڈیا کے نمائندوں نے مشرف کے بدنام زمانہ ریفرنڈم پر 14اپریل 2002کو فیصل آباد میں سچائی کو عیاں کرنے کے جرم میں بد ترین ریاستی تشدد جھیلا ،لاہور میں 2005میں عالمی یوم صحافت پر ریاستی دہشت گردی کی انتہا کر دی گئی نہتے صحافیوں پر لاٹھی چارج ہوا اور 9صحافی خون میں نہا گئے۔ اُسی روز دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس کے باہر 38صحافیوں کو گرفتار کرکے سہالہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا، وقت نیوز کے اشتہارات کی بندش محض سچ پر ہوئی ،حیات اللہ ،موسیٰ خان کی لاشیں گریں ،افتخار محمد چوہدری کی جنگ اسی میڈیا نے لڑی اور کرہ ارض پر عدلیہ کا وقار اُجاگر کرنے میں یہی میڈیا قابل دا د ٹھہرا۔
12مئی2007 کو جب ایک آمر شہر اقتدار میں سٹیج سجائے مکہ لہر ا لہرا کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہا تھا تو روشنیوں کے شہر میں افتخار چوہدری کی آمد پر استقبال کرنے والوں کی لاشیں گر رہیں تھیں اُس موقع پر آج نیوز چینل کا کردار قابل تقلید ہی نہیں قابل تحسین تھا۔ اور اُس روز سارے چینلز آزادی رائے کی جنگ نہیں لڑ رہے تھے ،روشنیوں کے شہر میں فسطائی ہتھکنڈوں کے مد مقابل کھڑا ہونا اُن کے کسی ذاتی مفاد کا شاخسانہ نہیں تھا وہ آمریت کے خلاف جمہوری معرکہ تھا ۔ولی خان بابر کی زندگی کی ڈور کیا ایک جمہوری دور میں نہیں کاٹی گئی؟ اگر یہ میڈیا نہ ہوتا تو آج جمہوری حکمرانی کا تاج آپ کے سر پر نہ ہوتا۔آج جو سچائی مورد الزام ہے باعث تنقید ہے اس سچائی پر ہم نے لہو کا خراج ادا کیا ہے 2000سے لیکر2010تک 162پاکستانی صحافیوں کی لاشیں گریں حب الوطنی پر کونسے سیاست دان نے دھرتی کو اپنا لہو دیا
میاں صاحب ! ہمارے لئے تو خواہ جمہوری دور ہو یا آمرانہ دور جبر ،تشدد ،ہتھکڑیاں ،جیلیں ،کوڑے سچ کے جرم پر ہمارا مقدر رہیں فرنگی دور میں 1857میں محمد حسین آزاد کے والد محمد علی باقر کو اسی سچ پر اپنی دھرتی کی جنگ لڑ تے ہوئے سزائے موت دی گئی ۔ آمرانہ ادوار کو لیں 1954میں روزنامہ امروز اور پاکستان ٹائمز اس لئے مارشل لاء کی زد میں آگئے کہ ان اخبارات نے امریکی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے سیٹو اور سینٹو پر بھر پور تنقید کی تھی ۔ضیائی مارشل لاء میں 18بڑے اخبارات اور 57میگزین بند ہوئے صحافیوں اور دانشوروں کو کوڑے لگائے گئے۔ 300سے زائد صحافیوں کو قید ہوئی ۔ مجھے ساغر صدیقی مرحوم کا ایک شعر یاد آرہا ہے جو ہمارے سچ کا عکاس ہے ہاں میں نے لہو اپنا گلستاں کو دیا ہے ہاں مجھ کو گل و گلزار پہ تنقید کا حق ہے اور پھر دور آپکا جمہوری ہو یا کسی آمر کا تزئین گلستاں میں جن کا لہو شامل ہے اُن کے قاتل حکومتوں میںشامل رہے۔
مدیر تکبیر شہید غازی صلاح الدین کے قاتلوں کا علم ہونے کے باوجود اُن پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکا ،حکیم سعید کے قاتلوں کے ساتھ محض اقتدار کی خاطر مصلحت کر لی گئی اسی طرح کی ایک تقریب تھی مگر یہ دورِ ایوبی تھا سچ لکھنا اور کہنا جرم تھے۔ شورش کاشمیری نے کہا تھا کہ”شروالدواب عنداللہ ہیں وہ لوگ جو قلم کا کاروبار کرتے ہیں بد قسمتی سے ملک کا دانشور طبقہ بالا خانوں کی مخلوق بن گیا انہوں نے جوہر قلم،جوہر زبان کو بازاری جنس کی صورت بخشی انکا خیال ہے کہ اسے درباروں کی چوکھٹ پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے” پھر اسی سچائی پر شورش کو مقدر شاہی قلعہ کے زنداں ہو گئے حاکم وقت نے بعینہِ اسی طرح کی ایک تقریب منعقد کی تھی حمید نظامینے جابر سلطان کے سامنے کھڑے ہو کرکلمہ حق یوں کہا “آزادی صحافت کی جنگ لڑتے ہوئے میدان میں یکہ و تنہا رہ جانا افسوس ناک ہے
مگر وجہ تفاخر بھی اس لیے اگریہ بات درست ہوتی تو نوائے وقت یکہ و تنہا رہ جانے کے باوجود اپنے اس شرف پر فخر کرتا مگر حقیقت یہ ہے کہ آزادی صحافت کی جنگ میں کئی دوسرے اخبار نوائے وقت کے دوش بدوش ہی نہیں لڑ رہے اس سے زیادہ جرات و بے جگری کا مظاہر ہ کر رہے ہیں اور اگر ابھی تک آزاد صحافت کا پرچم اس ملک میں سرنگوں نہیں ہوا تو اسکا سہرا انہی بہادر صحافیوں کے سر ہے جنہوں نے اپنے محدود وسائل و ذرائع کے باوجود فسطائی رحجانات سے اندھی طاقتوں کے سامنے ہتھیا ڈالنے سے انکار کر دیا” مگروزیراعظم کی اس تقریب میں نہ کوئی شورش تھا نہ کوئی حمید نظامی مجید نظامی اگر ہوتے تو وہ بھی یہ جرات ضرور کرتے جو جرات اُن کی بیٹی رمیزہ نے دکھائی ہے
تحریر : ایم آر ملک