تحریر : محمد صدیق مدنی
یہ میڈیا کا دور ہے جس پر معاشرے کے بنائو اور بگاڑ کا دارو دار ہے۔ میڈیا کا کردار معاشرے میں مثبت سوچ کو بھی جنم دے سکتا ہے۔اور مایوسی فساد انتشار اور فحاشی جیسے رجحانات کو بھی چھی جنم دے سکتا ہے۔اگر معاشرے میں کوئی برائی پیدا ہورہی ہے تو اس کے اثرات کو اسی صلاحیتوں سے بھی روک سکتا ہے۔خواہ وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا مگربڑے افسو س کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہم رہتے تو مسلم معاشرے میں ہیں۔لیکن ہمارا میڈیا اپنی اسلامی اقدار بھول گیا ہے۔ ہمارے میڈیا نے مغربی تہذیب کی عکاسی کر کے غیر مہذب افعال جو ایک صالح معاشرے میں نشو نما نہیں پاسکتے تھے یہ سب میڈیا کی تشہیر کے ذریعے ممکن ہو چکا ہے۔
بے حیائی اور فحاشی کے سیلاب نے ہمارے معاشرے کا چہرہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے جب ہم میڈیا کی آزادی کا واویلا مچاتے ہیں تو ہمیں ایک بات مدنظررکھنی چاہئے اگر میڈیا کے ذریعے منفی رجحانات میں اضافہ ہو سکتا ہے اگر میڈیا کے ذریعے غیر مذہبی رومیں فروغ پا سکتی ہیں۔تو کیا میڈیا کے مثبت رویے سے ایک خوبصورت اسلامی معاشرہ کا قیام عمل میں نہیں لایا جا سکتا ہے:؟مزاح اور انٹر ٹینمنٹ کے نام پر الیکٹرانک میڈیا جو مختلف پروگرامز دکھا رہا ہے جس میں ملک کے صدر سے لے کر کسی عام آدمی کو مذاق کا نشانہ بنایا جا تا ہے۔میڈیا اگر اپنی حدود قیود میں رہ کر مثبت رویہ اپنا کر نیک نیتی سے اپنے فرائض سر انجام دے تو اس کے حوصلہ افزا نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔
بلا شبہ معاشرے کے رویوں سے آگاہ کرنا میڈیا کا فرض ہے مگر بد قسمتی سے میڈیا نے ہمارے معاشرے کے تمام منفی پہلوئوں کو نشانہ بنایا ہوا ہے جس میں سر فہرست ہمارے سیاستدانوں کے ” کارنامے ” ہیں۔ جس کی وجہ سے پاکستان پوری دنیا کے سامنے ایک مذاق بنا ہوا ہے۔میڈیا کو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔میڈیا کے ذریعے اخلا ق باختگی تمام حدود پھلانگتی نظر آتی ہے۔آج ہمارا معاشرہ صرف اخلاقیات سے ہی عاری نہیں ہواشعائر اسلامی اور ملک کی نظریاتی اساس کو بھی بھلا بیٹھا ہے۔الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بے حیائی کا ایسا اودھم مچایا جا رہا ہے جو ناقابل بر داشت ہے۔
کمرشلز ایسے بنائے جار ہے ہیں۔جن میں خواتین آدھا لباس پہنے ہوئے ہوتی ہیں۔فیملی کے ساتھ بیٹھ کر خبر نامہ دیکھنا مشکل ہو چکا ہے۔ محمدصدیق مدنی نے کہا ہے کہ ہمارے معاشرے کو دانستہ طور پر بد اخلاقی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔میڈیا کا پیدا کردہ فحاشی اور عریانی کا سیلاب ہر گھر میں داخل ہورہا ہے۔نوجوان نسل مغربیت کا شکار ہو چکی ہے۔رہی سہی کسر موبائل فون کے سستے اور گھنٹوں والے پیکجز اور انٹر نیٹ نے نکا ل دی ہے۔ہماری نوجوان نسل دن رات انٹر نیٹ اور موبائل فون سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
یہ اخلاق باختگہ ماحول اپنا رنگ دکھا رہا ہے موبائل فونز اور نٹر نیٹ نے اخلاقیات کا عملی جنازہ نکا ل دیا ہے۔نوجوانوں میں غیرت و حمیت کی کوئی رمق باقی نہیں رہی۔جس معاشرہ میں اخلاقی اقدار کا خاتمہ ہو جائے اس معاشرے کو تباہ ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔سمجھ سے بالا تر ہے جب پرنٹ میڈیا پر جنسی اشتہارات کی نمائش کی جاتی ہے۔تو پیمرا کا ادارہ کہاں ہوتا ہے۔
پیمرا الیکٹرانک میڈیا کے لیے کیوں کوئی ضابطہ اخلاق طے نہیں کرتا ؟ اخلاقی طور پر پستی کی جانب گھرے ہوئے ہمارے معاشرے کو اب میڈیا ہی سنبھالا دے سکتا ہے۔اگر میڈیا کے ذریعے معاشرے میں برائیاں فروغ پا سکتی ہیں۔تو یقیناً میڈیا ہی کے ذریعے معاشرے میں اچھے رجحانات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔اس حوالے سے چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو فعال اور مئوثر کرنے کی ضرورت ہے۔
تحریر : محمد صدیق مدنی