تحریر : جاوید صدیقی
سابق صدر پرویز مشرف کی خامیوں پرتو تمام سیاسی جماعتیں اورکچھ میڈیا کے چینلز اور اخبارات یکجا نظر آتے ہیں مگر وہ بھول جاتے کہ ِان کے زمانے میں ہی میڈیا کو آزادی ملی۔۔ سرکاری ٹیلیویژن کے ساتھ نجی چینلز کیلئے راہیں کھول دی گئیں جن میں نہ صرف نجی چینلز شامل تھے بلکہ ان میں اخبارات، جرائد اور ریڈیو بھی شامل ہیںاس کے علاوہ میڈیا کو اصولی، اخلاقی اور نئے چینلز، اخبارات و جرائد اور ریڈیو کو آزادی میسر ہوئی اور بے شمار لائنسس کا اجرا بھی کیا گیا۔۔سابق صدر پرویز مشرف کے زمانے میں الیکٹرنک میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک ادارہ وجود میں لایا گیا جسے پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیشن اتھارٹی یعنی پیمرا کا نام دیا گیا تھا۔پیمرا کی ذمہ داری عائد کی گئی کہ وہ تمام میڈیا کو اخلاقی اقدار میں پابند رکھےاور کسی بھی غیر اخلاقی اور غداری کے معاملات میں پایا جائے تو فی الفور بند کرکے قانونی کاروائی کی جائےاس کے علاوہ میڈیا کیلئے ایک اصول بنایا گیا کہ وہ اپنے ملازمین کیلئے مشاہرہ کے ساتھ دیگر بنیادی ضروریات فراہم کر ے جس میں طبی سہولیات، بونس، انشورنس،پروموشن اورگریجویٹی شامل ہیں۔لائسنس لیتے ہوئے تمام مالکان اس بات پر نہ صرف عہد کرتے ہیں بلکہ تحریربھی کرتے ہیں کہ وہ پیمرا کی تمام پابندیوں ،اصول و ضوابط کے پابند رہیں گے ۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور اقتدار کے بعد پیمرا میں سیاسی جماعتوں نے نا اہل اور من پسند چیئرمین کو تعینات کرتے گئے
تاکہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کرسکیں جن میں سابق صدر آصف علی زرداری کا دور اقتدار اور اب میاں نواز شریف کے دور اقتدار میں ریٹائرڈ پولیس افسر کو اس نازک اور اہم ترین منصب پر فائز کیا ہے حالانکہ پیمرا میں موجود ذہین و قابل افسران اس عہدے کے اہل ہیں لیکن انہیں اس لیئے منصب نہیں دیا جاتا کہ وہ بے ایمانی و غلط کام نہیں کریں گے اور ان کے غلام نہیں بن سکیں گے۔پیمرا کے قانون میں شامل ہے پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف بیانات غداری میں شمار کیا جائیگااور ریاست میں بلواسطہ و بلاواسطہ مداخلت جس میں نئی ریاست کا قیام بھی شامل ہے غداری کے زمرے میں آئے گا ایسے میڈیا ادارے کے خلاف پمیرا ایکشن لے گالیکن حیرت و تعجب ہے کہ پمیرا کے اصولوں کی دھجیاں بکھیردی جاتی ہیں پھر بھی پیمرا آنکھ، کان اور زبان بند کیئے رہتا ہے جیسے کہ پیمرا سیاسی لیڈران کا غلام یا ادارہ ہو گویا حکومت پاکستان سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔۔۔!! حالیہ دنوں میں میڈیا انڈسٹریز میں ایک بڑا نام ابھرا بول چینل جس نے اپنے ملازمین کو نہ صرف پیمرا کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے مراعات کیساتھ بہتر تنخواہیں فراہم کی بلکہ ایک نیا باب شروع کردیا جس سے دیگرنجی چینلز میں بے چینی ڈور پڑی اور مالکان پریشان ہوگئے
انہیں بھی اپنے ملازمین کو وہ سب کچھ کرنا مجبورہوگیا جو پیمرا کے اصول پر منحصر ہے، ہر بڑے چینلز سے بول میں جانا ملازمین میڈیا کا مشن بن گیاہے۔۔۔!! ہونا تو یہی چاہیئے تھا کہ دیگر چینلز بھی اپنے اپنے ملازمین کو وہ تمام مراعات اور تنخواہیں فراہم کرتے جو پیمرا نے پابند کیا ہوا ہے لیکن سیاسی لیڈران ، حکمران کے مفادات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیمرا کے اصولوں کی خلاف ورزی میں مرتکب رہے، بول کی کامیابی ہضم نہ ہوئی ممکن ہے نجی چینلز کے مالکان اس عمل کی روک تھام کیلئے کچھ کرگزریں۔پاکستان کا المیہ رہا ہے کہ یہاں پر اگر کوئی عوامی فلاحی کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے آگے اس قدر مسائل اور پیچیدگیاں پیدا کردی جاتی ہیں کہ وہ راہ فرار چاختیار کرنے پر مجبور ہوجائے ایسا ہی بول کیساتھ ہورہا ہے اب دیکھنا ہے کہ وقت کیا رنگ لائیگا۔ایک اور حیرت کی بات یہ ہے کہ میڈیا کے مختلف چینلز، اخبارات ایک دوسرے کے خلاف اس قدر ہیں کہ انہیں اپنے علاوہ دوسرا برداشت نہیں۔۔
میڈیا کے چینلز کسی نہ کسی کے آلہ کار ثابت ہورہے ہیں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ میڈیا اپنی ذمہ داریوں سے کوسوں دور چلا جارہا ہے اگر یہی حال رہا اور مالکان نے ملازمین کی بینادی ضروریات کا خیال نہ رکھا تو شائد میڈیا میں شدید بحران آجائے اور ناظرین پاکستانی چینلز سے اکتا جائیں ،بہتر یہی ہے کہ چینلز، اخبارات و جرائد اورریڈیواپنے اپنے ملازمین کیساتھ انسانی، اخلاقی اور دینی فرائض کو نبھاتے ہوئے نہ صرف پیمرا کے اصولوں پر کاربند ہوں بلکہ اپنے درمیان ہونے والی تمام غلط فہمیوں کو دور کرتے ہوئے میڈیا انڈسٹریز کو پروان چڑھانے کیلئے اپنا اپنا مثبت کردار ادا کریں،کسی بھی ادارے کے ملازمین اثاثہ ہوتے ہیں کیونکہ یہ ملازمین مین پاور ہیں اگر مین پاور پر دھیان نہ دیا گیا تو مین پاور کمزور پڑجائیگی۔بھارت میں میڈیا کی کامیابی ہی ان کے ملازمین کا صحیح حق ادا کرنے سے حاصل ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ بہت کم عرصہ میں بھارت کی میڈیا نے دنیا بھر میں اپنا مقام بنالیا ہے، بھارت ہو یا مڈل ایسٹ یا یورپ دنیا بھر کی میڈیا انڈسٹریز کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آئیگی کہ انھوں نے اپنے ملازمین کا اسقدر خیال رکھا کہ کام کرنے والے ذہنی طور پر مطمعین نظر آئے لیکن پاکستان وہ واحد ملک ہے
جہاں لولی پاپ دیئے جاتے ہیںاور اپنے ملازمین کو صرف بونس اور پروموشن کے خواب دکھا کر وقت گزاری کرتے ہیں اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو ہماری فلم انڈسٹریز کی طرح میڈیا انڈسٹریز بھی تباہ حالی کا شکار ہوجائیگی اب بھی وقت ہے کہ ان معاملات پر سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے اس انڈسٹریز سے تعلق رکھنے والے ملازمین کا خیال رکھا جائے، ان کے پروموشن اور ےتنخواہ کا نظام مروج کیا جائے جس میں تعلیم اور تجربہ کو مد نظر رکھتے ہوئے پروموشن بورڈ بنایا جائے تاکہ حق تلفی کا عمل پیدا نہ ہوسکے اور پاکستان کی میڈیا انڈسٹریز دنیا بھر میں اپنا نام ، مقام پیدا کرسکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت وقت کو اس جانب بغیر کسی خوف و خطر تمام مالکان میڈیا کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے اپنے اداروں کی بہتر بنانے کیلئے اپنے ملازمین کیساتھ انساٖ برتے ہوئے پروموشن، بونس اوردیگر مراعات کو یقینی بنائیں اگر کوئی میڈیا ادارہ ایسا نہ کرے تو اس کا نہ صرف لائسنس ضبط کرلیا جائے بلکہ اس کے خلاف قانونی چارہ گوئی کرتے ہوئے اسے بلیک لسٹ کردیا جائے۔۔۔
دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ کچھ کالا دھن کرنے والے لوگوں نے چھوٹے چینل لاؤنچ کیئے ہیں تاکہ اپنے بلیک منی کو وائٹ کرسکیں جب پیمرا ازسر نو تحقیات کریگا تو اُیسے ایسے مالکان ضرور ملیں گے، میڈیا انڈسٹریز پاکستان کے چہرے کو دنیا بھر میں دکھاتا ہے یہ بہت اہمیت کا حامل انڈسٹری ہے اس پر توجہ دینا پاکستان کی سالمیت کے برابر ہے، امید ہے کہ پیمرا کیساتھ ساتھ سپریم کورٹ بھی پاکستان کی میڈیا انڈسٹریز پر توجہ دیتے ہوئے انہیں قانون اور پیمرا کے ضوابظ پر ضرور پابند کریگا۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والے ملازمین پیمرا اور سپریم کورٹ سے بہت پر امید ہیں ، امید ہے کہ یہ دونوں مقدس ادارے ان ملازمین کو ہرگز مایوس نہیں کریں گے آمین۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔
تحریر : جاوید صدیقی
ای میل: Journalist.js@hotmail.com
رابطہ: 03332179642 & 03218965665